• news
  • image

سازو سامان سے لیس ڈاکو پولیس پر حاوی پڑنے لگے


 سیاسی ڈائری 
میاں غفار احمد 

جنوبی پنجاب میں اچانک جرائم کے رجحان میں خوفناک اضافہ ہو گیا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں نامعلوم ڈاکو ٹڈی دل کی طرح جنوبی پنجاب پر حملہ آور ہیں۔ ان ڈاکوؤں نے پولیس کے تمام تر انتظامات ، تربیت اور مہارت کا ستیاناس کرکے رکھ دیا ہے۔ ملتان کے علاقے گارڈن ٹاؤن میں ڈبل کین ڈالے پر ڈاکووں کے ایک ایسے گروہ کی وارداتیں جاری ہیں جو نئے ماڈل کے ڈبل کیبن ڈالے پر وارداتیں کر رہے ہیں۔ دو روز قبل ملتان میں مجھے شہر کی  ایک معزز شخصیت سے ملنے کے جانے کا اتفاق ہوا جہاں ان کی کوئی اہم میٹنگ چل رہی تھی۔ کاروباری حالات اور ملکی معاملات پر گفتگو شروع ہوئی تو دس شرکاء میں سے چھ نے بتایا کہ ان کے قریبی عزیزوں کے ساتھ صرف گزشتہ دو ہفتوں میں کس کس طرح ڈکیتی اور راہزنی کی وارداتیں ہوئی ہیں۔ اب سفارشی تھانے داروں کے خلاف کارروائی تو ہو نہیں سکتی۔ ملتان ڈویژن کے اضلاع خانیوال، لودھراں اور ملتان مکمل طور پر ڈکیتیوں کے نرغے میں ہیں جہاں پولیس ڈاکوؤں کے ہاتھوں ناک آوٹ ہو چکی ہے۔
     اخباری شعبے سے وابستہ اخبار فروش حضرات صبح تہجد کے وقت گھروں سے اخبار مارکیٹ کے لئے نکلتے ہیں اور ان کے پاس صرف دو سے تین ہزار کیش ہوتا ہے۔ ہر ہفتے تین سے چار اخبار فروش ڈکیتوں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں۔ اب دو ہزار کے لئے کون تھانوں کے دھکے کھائے لٰہذا خاموش ہو جاتے ہیں اسی طرح صبح سویرے سبزی منڈی جانے والوں کے ساتھ ہو رہا ہے، مقدمات درج نہیں ہوتے اور پولیس کا ریکارڈ خود بخود ڈکیتیاں کم بتاتا ہے۔ ملتان کے تھانہ دہلی گیٹ میں دو ڈاکوں نے 25 منٹ میں چھ وارداتیں کیں۔ ڈاکو تعلیم یافتہ تھے، موبائل چھینتے تو اسے چیک کرتے پھر ماڈل دیکھ کر کوئی موبائل رکھ لیتے اور کوئی واپس کر دیتے۔ پرس چھین کر صرف رقم نکالتے اور پرس واپس کر دیتے۔ ملتان پولیس نامعلوم ہدایات کی روشنی میں ڈکیتی کی ایف آئی آر کو چوری میں تبدیل کر کے اپنے معاملات سیدھے رکھتی ہے اور کرائم ڈیٹا سکون ڈاٹ کام کی نوید سناتا ہے۔ 
     گزشتہ سے پیوستہ سال کے حکومتی سٹاک میں پڑی گندم سرکاری دعوے کے مطابق ختم ہونے پر حکومت نے فوری طور پر گندم کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے جس سے فلور ملز کا دس کلو کا تھیلا اب 490 سے بڑھ کر 650 روپے کا ہو گیا ہے جبکہ چکی کا خالص گندم کے آٹے کے نام پر فروخت ہونے والا فلور ملوں ہی کا آٹا 100 روپے سے 120 روپے پر جا پہنچا ہے۔ مئی جون 2021ء میں حکومت نے کاشتکاروں سے گندم 1800 روپے من خریدی تھی اور فلور ملوں کو 1765 روپے من کے حساب سے فروخت کی تھی۔ سال 2022 میں گندم کی سرکاری قیمت 2200 روپے مقرر ہو گئی تو حکومت نے اس ریٹ پر کاشتکار سے گندم خریدی اب حکومت کی طرف سے جو مراسلہ جاری ہوا ہے اس کے مطابق حکومت فلور ملوں کو 2200 کی بجائے 2300 روپے میں گندم سپلائی کرے گی اس طرح گزشتہ سال 35 روپے فی من کی رعایت رواں سال میں 100 روپے اضافہ کی شکل اختیار کر گئی۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سال 2021ء میں خریدی گئی گندم کا سٹاک ختم ہو چکا ہے جبکہ متعلقہ ذرائع اور گندم کے کاروبار سے وابستہ لوگوں کے مطابق حکومت کے پاس ابھی بھی اگلے دو ماہ کے لئے پرانی گندم کا سٹاک موجود ہے۔ اب کون سچا ہے اللہ جانے۔
اب سوال یہ ہے کہ حکومت 100 روپے فی من اضافہ لے کر 2300 روپے فی من کے حساب سے گندم کیوں دے رہی ہے تو تلخ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری محکموں اور اداروں میں ہر مرحلے پر کمیشن کا بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے اوپن مارکیٹ میں جو باردانہ 50 روپے فی تھیلے کے حساب سے فروخت ہوتا ہے حکومتی ادارے اسے 80 روپے تک میں خریدتے ہیں اور تقریباً 30 روپے فی تھیلا کمیشن کی مد میں بااختیاروں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ گندم کی خریداری کے لئے بنکوں سے جو ڈیل کی جاتی ہے اس کا شرح سود بھی عام مارکیٹ سے ڈیڑھ سے دو فیصد زیادہ ہوتا ہے اور اس حساب سے اگر حکومتی ادارے 400 ارب کا قرض لیتے ہیں تو ایک فیصد کے حساب سے 4 ارب تو خاموشی سے ہی فیصلے کرنے والوں کو مل گیا اور یہ بوجھ بھی تو عوام پر ہی پڑے گا۔ ملک بھر میں گندم کی سپلائی کے ٹھیکے سالہا سال سے اوپن کرنے کی بجائے چند ہاتھوں میں ہیں بلکہ ملک بھر میں شاید پانچ چھ پارٹیاں ہی ایسی ہیں جو آپس میں بندر بانٹ کر لیتی ہیں اور پھر پول کے بعد عام ٹرانسپورٹر اگر لاہور سے اٹک یا لودھراں سے لاہور 100 روپے فی من کرایہ لیتا ہو تو محکمہ خوراک سے یہ چند ٹھیکیدار 150 سے 1991ء میں روپے فی من لیں گے اس میں سیاسی طاقت ور شخصیات کے علاوہ اہم متعلقہ افسران بھی مکمل طورپر مستفید ہوتے ہیں اور یہ بوجھ بھی آخر کار عام ہی کے سر پر آتا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ آٹا چکی مالکان کی اکثریت مختلف مزدوروں کو لائن میں لگا کر سرکاری آٹا لیتی ہے اور اس میں 20 فیصد خالص گندم کا آٹا مکس کر کے 65 روپے کلو والا آٹا 120 روپے فروخت کر رہی ہے، مگر حکومت پنجاب کے پاس انہیں چیک کرنے کا کوئی بھی باقاعدہ نظام موجود نہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن