سیاستدان اتفاق سے آگے بڑھیں ، اسمبلیوں کی مدت میں توسیع والی سمری آنے پر دیکھیں گے : صدر
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ)صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے علوم کے فروغ اور نوجوانوں کو جدید تعلیم اور سائنسی علوم سکھانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے نتیجے میں نہ صرف ملک کو ترقی یافتہ بنانے میں مدد ملے گی بلکہ تعلیم کے شعبے میں نمایاں بہتری آئے گی، ترقی یافتہ قومیں اپنی زبان پر فخر کرتی ہیں، پاکستان کے آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اپنی زبان کو مستحکم رکھنا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں انگریزی زبان کے حوالے سے تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ امریکی سفیر و دیگر کو سوینئرز پیش کئے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے ملک کے نوجوانوں اور خواتین پر زور دیا ہے کہ وہ انسٹی ٹیوٹ آف رورل مینجمنٹ اور اگنائیٹ کے تعاون سے شروع کئے گئے گوگل کے کیریئر سرٹیفکیٹ پروگرام کے تحت پیش کردہ 15,000 آن لائن کورسز میں فعال طور پر داخلہ لیں اور ان سے بھرپور استفادہ کریں، ڈیجیٹلائزیشن سے کاروباری اداروں کی کارکردگی میں اضافہ ہوگا جبکہ بے روزگار افراد کو قومی معیشت میں اپنا حصہ ڈالنے کے مواقع میسر آئیں گے، پاکستان اپنے آئی ٹی سیکٹر کی بدولت ترقی کی دوڑ میں آگے نکل سکتا ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار جمعرات کو گوگل کیریئر سرٹیفکیٹ پروگرام کی لانچنگ تقریب سے اپنے ورچوئل خطاب میں کیا۔ صدر عارف علوی نے 19 ستمبر کو شمالی وزیرستان میں شہید ہونے والی سپاہی نذر محمد کے بھائی کو فون کیا اور تعزیت کا اظہار کیا۔ نجی ٹی وی کو انٹریو میں کہا میں صدر نہیں بننا چاہتا تھا، کہا گیا تھا سپیکر بنائیں گے، کسی وجہ سے خان صاحب نے کہا آپ صدر بن جائیں۔ لوگ کہتے ہیں واضح مینڈیٹ آنا چاہیے جو معیشت کیلئے اچھا ہے، نوازشریف کی وزارت عظمیٰ میں عمران خان کے ساتھ ایک بار پی ایم ہاؤس گیا، اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کہہ رہے تھے سینٹ الیکشن میں بے انتہا پیسہ چلتا ہے جسے مل کر روکنا ہے۔ ایوان صدر میں پریشان کن وقت گزر رہا ہے، ملک میں سیلاب، سیاسی معاشی بحران ہو تو ذہنی پریشانی بڑھ جاتی ہے، سب سے اپیل ہے ملک کا ماحول ایسا ہو کہ معاملہ حل کی طرف جائے، پاکستان پولرائزیشن کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ حکومت کی تبدیلی پر چیف جسٹس سپریم کورٹ کو لکھے گئے خط کا جواب نہیں آیا، چیف جسٹس کو خط میں لیاقت علی خان کی شہادت کا ذکر کیا کہ آج تک تحقیقات کا پتہ نہیں چلا، بیگم رعنا لیاقت علی خان نے میرے والد کو سمری دی تھی جس میں تحقیقات تھیں۔ اللہ کی مدد ہے اس لئے اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہا ہوں۔ پاکستان اس وقت کسی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کامیابی دینا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہم صرف کوشش کرتے ہیں۔ سیاستدانوں سے اپیل کرتا ہوں انتشار ختم کریں اور اتفاق سے آگے بڑھیں۔ وفاداریاں بدلی جاتی ہیں۔ پیسہ چلایا جاتا ہے۔ غریب پر کیا گزرتی ہو گی۔ ریاست میں سیاسی لیڈر شپ، حکومت یا اپوزیشن کے سیاسی کردار کی اہمیت ہے۔ سپریم کورٹ سے درخواست کی تھی مراسلے کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ لیاقت علی خان کا قتل کیسے ہوا، آج تک اس سازش کا پتہ نہیں چلا۔ ایوب خان نے بھی ایک سازش کا ذکر کیا تھا، 65 میں بھی سازش کا ذکر ہوا تھا۔ ایوب خان نے فرینڈز آف پاکستان کتاب کے ذریعے سازشوں کا ذکر کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی سازشوں سے متعلق ایک کتاب لکھی تھی۔ بھٹو نے کہا تھا پاکستان حقیقی طور پر آزاد نہیں ہے۔ ضیاء الحق کا طیارہ بھی گرایا گیا۔ طیارہ کیسے گرایا گیا آج تک پتہ نہیں چلا۔ سپریم کورٹ کو میں نے مثالیں دیں کہ حالیہ مراسلے کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ بحران بڑے ہیں تجویز رکھ رہا ہوں کہ فریش مینڈیٹ ایک اچھا راستہ ہے۔ پاکستان کو بحرانوں کا سامنا ہے۔ فوری انتخابات ایک اچھی تجویز ہے۔ آج بھی انتخابات کا اعلان کر دیں تو کم از کم 3 ماہ تو لگیں گے۔ میں کہتا ہوں کہ اس میں بیٹھ کر کوئی راستہ نکال لینا چاہئے۔ یہ کہنا کہ انتخابات نہیں ہوں گے اور مدت بڑھانے کی بات بھی کی جا رہی ہے۔ ایسی باتیں ہوں گی تو انتشار بڑھے گا جس سے ملک کو نقصان ہو گا۔ بہت سے ممالک نے اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر آئل جیسے کرائسز کا حل کیا ہے۔ ہماری تو جیب ہی نہیں جو جیب ہے اس میں چھید ہے۔ اپوزیشن اور حکومت کو کسی نہ کسی فورم پر ساتھ بٹھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ایسے ہی معیشت پر بات کرنی ہے تو کرنی چاہیے۔ سیاسی بحران سے معاشی نقصان ہو رہا ہے۔ قوم اس صورتحال کو معاف نہیں کرے گی۔ طاقتور مینڈیٹ رکھنے والی حکومت کی ضرورت ہے۔ پہلے اور بعد کی باتیں ہوتی رہیں گی تو پھر بات ہی نہیں ہو گی۔ میں کوئی سمجھوتوں کی بات نہیں کر رہا چاہتا ہوں بیٹھ کر بات ہونی چاہیے۔ بیٹھ کر بات کریں گے تو یقیناً کوئی نہ کوئی حل ضرور نکل آئے گا۔ پاکستان میں شفاف انتخابات کیلئے ای وی ایم کا انتہائی اہم کردار ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے معاملے کو 2008ء میں عدالت میں لے گیا تھا۔ انتخابات میں دھاندلی روکنے کیلئے ایک حل تھا۔ جس پر کوئی راضی نہیں تھا۔ اوورسیز پاکستانی جو پیسے بھیجتے ہیں وہ اچھے لگتے ہیں لیکن ووٹ کا حق نہیں دیتے۔ اوورسیز پاکستانیوں کو کہا جاتا ہے کہ ووٹ ڈالنے کیلئے واپس آ جائیں۔ دوہری شہریت والے 5 فیصد ہوں گے۔ زیادہ تر تو مزدور اوورسیز پاکستانی ہیں۔کہا جاتا ہے نیب قانون سیاسی انتقام کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ عمران خان کیخلاف مذہب کارڈ استعمال کرنے کی مذمت کرتا ہوں۔ اسمبلیوں کی مدت میں توسیع کی جب سمری آئے گی تو دیکھیں گے۔