• news

عوام نے 5 برس کیلئے منتخب کیا ، تحریک انصاف پارلیمنٹ میں کردار ادا کرے : چیف جسٹس 

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ استعفوں کی منظوری میں جلد بازی نہ کریں سوچ لیں‘ سپیکر اگر استعفوں میں تصدیق کرنا چاہتے ہیں ہم کیسے روک دیں۔ سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو استعفوں کی منظوری کیخلاف اپیل پر عمران خان سے ہدایات لینے کی مہلت دیدی۔ سپریم کورٹ میں قومی اسمبلی سے تمام استعفے ایک ساتھ منظور کرنے کی پی ٹی آئی درخواست پر سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم دو رکنی بینچ نے کی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کو اسمبلی میں واپسی کا مشورہ دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا عوام نے پانچ سال کیلئے منتخب کیا ہے، اس لئے پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرے، پارلیمان میں کردار ادا کرنا ہی اصل فریضہ ہے، کروڑوں لوگ اس وقت سیلاب سے بے گھر ہوچکے ہیں، سیلاب متاثرین کے پاس پینے کا پانی ہے نہ کھانے کو روٹی، سیلاب متاثرین کیلئے تو بیرون ملک سے لوگ متاثرین کی مدد کیلئے آ رہے ہیں، ملک کی معاشی حالت بھی دیکھیں، پی ٹی آئی کو اندازہ ہے 123 نشستوں پر ضمنی انتخابات کے کیا اخراجات ہونگے؟۔ تحریک انصاف کے وکیل فیصل چوہدری نے بتایا کہ عمران خان کی جانب سے اب تک سیلاب متاثرین کیلئے 13.5 ارب روپے اکٹھے کئے گئے ہیں۔ ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں استعفوں کی منظوری سے پہلے کے حقائق کو دیکھا ہے لیکن استعفوں کی منظوری کے بعد کے حالات نہیں دیکھے، صرف چند منتخب حلقوں میں الیکشن کروانا تفریقی عمل ہے۔ استد عا ہے کہ سارے حلقوں میں ایک ساتھ الیکشن کرائے جائیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا جسٹس اطہر من اللہ نے گہرائی سے قانون کا جائزہ لیکر فیصلہ دیا ہے، سپیکر کے کام میں اس قسم کی مداخلت عدالت کیلئے کافی مشکل کام ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تحریک انصاف نے حلقوں میں انتخابات پر حکم امتناعی کیوں مانگا ہے۔ جس پر فیصل چوہدری نے کہا یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ من پسند حلقوں میں انتخابات نہیں ہو سکتے،؟۔ شکور شاد کے سوا کسی رکن نے استعفے سے انکار نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کیا سپیکر کو کبھی پوچھا ہے کہ استعفوں کی تصدیق کیوں نہیں کر رہے؟۔ سپیکر کا اپنا طریقہ کار ہے ہم کیسے مداخلت کر سکتے ہیں۔ ہر ادارے کی اپنی صلاحیت ہوتی ہے۔ ضمنی انتخابات میں ٹرن آؤٹ بھی کم ہوتا ہے۔ فیصل چوہدری نے کہا ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ سپیکر کے کام میں مداخلت نہیں کر سکتے، دوسری جانب سے شکور شاد کی درخواست پر سپیکر کا حکم معطل کر دیا۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا تحریک انصاف کو سکروٹنی سے مسئلہ کیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ہم نے عملی طور پر بھی دیکھنا ہے جنرل الیکشن تو سارے ملک میں ہوتے ہیں ایک نظام ہوتا ہے لیکن اس وقت ملک میں حکومتیں کام کر رہی ہیں۔ وکیل فیصل چوہدری نے کہا استعفے دینے کے بعد اس وقت ڈپٹی سپیکر قاسم سور ی نے استعفے منظور کر لئے تھے۔ استعفے منظور ہو جائیں تو دوبارہ تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ چیف جسٹس  نے مزید کہا سپیکر کے معاملہ میں مداخلت کرنا ہمارے لیے بڑا مشکل ہے۔ سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے استعفوں کی منظوری کے آرڈر میں کچھ بھی نہیں۔ ہمیں ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے آرڈر کی طرف مت لیکر جائیں۔ سابق سپیکر کے آرڈر پر لیکر گئے تو کچھ اور نہ ہوجائے۔ چیف جسٹس نے کہا قاسم سوری کا فیصلہ اسی ارادے سے لگتا ہے جیسے تحریک عدم اعتماد پر کیا تھا۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا قاسم سوری کے فیصلے میں کسی رکن کا نام نہیں جن کا استعفی منظور کیا گیا ہو، تحریک انصاف بطور جماعت کیسے عدالت آ سکتی ہے؟۔ استعفی دینا ارکان کا انفرادی عمل ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ریاست کے معاملات میں وضع داری اور برداشت سے چلنا پڑتا ہے، جلد بازی نہ کریں، سوچنے کا ایک اور موقع دے رہے ہیں، پارٹی سے ہدایات لیں۔ جس کے بعد عدالت نے فیصل چوہدری کو ہدایات لینے کیلئے وقت دیدیا اور سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔ دوسری جانب تحریک انصاف نے 16 اکتوبر کو قومی اسمبلی کے آٹھ حلقوں کے الیکشن شیڈول کو معطل کرنے کی متفرق درخواست سپریم کورٹ میں دائر کر دی ہے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ استعفوں کی منظوری کیخلاف اپیل عدالت عظمی میں زیر التواء  ہے۔ الیکشن شیڈول معطل نہ کیا گیا تو تحریک انصاف کی اپیل پر اثرانداز ہوگا۔ اس لئے استعفوں سے متعلق اپیل پر فیصلہ ہونے تک آٹھ حلقوں کے الیکشن شیڈول کو معطل کیا جائے۔
اسلام آباد (این این آئی+ نوائے وقت رپورٹ) فواد چوہدری نے سپریم کورٹ کے پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں واپسی کے مشورے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں انتخابات نہ ہونے کا نقصان انتخابات نہ کرنے سے کہیں بڑا ہے۔ ٹوئٹر پر جاری بیان میں فواد چوہدری نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا کہ پی ٹی آئی کو اندازہ ہے 123ضمنی انتخابات پر کتنے اخراجات ہوں گے؟۔ سپریم کورٹ کو اندازہ نہیں رجیم چینج آپریشن میں پاکستان کو اب تک 5 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ سپریم کورٹ کی آبزرویشن آئین سے متصادم ہے۔ عوام اس اسمبلی کو نمائندہ نہیں سمجھتے۔ الیکشن سے زیادہ قیمت ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کو دے رہے ہیں جس سے انتخابات روکے گئے۔ چار ماہ پہلے انتخابات ہو جاتے تو آج حکومت کی یہ حالت نہ ہوتی۔ اس بار لانگ مارچ کے حوالے سے ہماری حکمت عملی مختلف ہو گی۔ غیرمنتخب عہدیدار اصل فیصلہ ساز ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ساتھ نہ ہو تو حکومت کچھ نہیں کر سکتی۔ ملک مزید ایسے نہیں چل سکتا۔ نظام بدلنے کیلئے عوام عمران کے ساتھ ہیں۔ آگے دو ہی راستے ہیں یا تو فساد‘ لڑائی ہو گی۔ یا پھر اسٹیبلشمنٹ اور پارٹیاں چیزیں ٹھیک کریں۔ علاوہ ازیں فواد چودھری نے توہین عدالت کیس میں عمران کے وکیل حامد خان کو گگو گھوڑا قرار دیدیا۔ فواد چودھری نے کہا کہ عمران خان کے وکیل حامد خان گگو گھوڑا ہیں۔ عمران کو بات ہی نہیں کرنے دی جاتی۔ یہ معاملہ عدالت اور ملزم کے درمیان ہوتا ہے۔ حامد خان منہ اٹھا کر بیچ میں آ جاتے ہیں۔ عمران سے کہا تھا کس گگو گھوڑے کو رکھ لیا۔ عمران سے کہا تھا عدالت سے خود بات کریں۔ دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما فیصل جاوید نے کہا ہے کہ قومی اسمبلی میں واپس جانے والا مشورہ مناسب ہے۔ میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے  کہا کہ عمران خان عدلیہ کا احترام کرتے ہیں، ہمیشہ قانون کا احترام کرنے کی بات کی ہے۔ عمران خان ملک کے لئے سوچ رہے ہیں، ان کے بیرون ملک اثاثے نہیں ہیں، تمام تر مسائل کا حل ہی الیکشن ہے، عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ اس سے پہلے عمران خان نے قانون کی پاسداری کے لئے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔

ای پیپر-دی نیشن