’تو ہمارا کیا قصور ہے؟‘
مت اُچھلو ۔ تیز بھاگو۔ سکون سے بیٹھ جاؤ اور مجھے بھی سکون لینے دو۔ سارا دن فالتو شور کرتے رہتے ہو ایک تو تم سکول بھی نہیں جاتے ۔ ’’تو اِس میں ہمارا کیا قصو ہے؟‘‘ قصور والے معصوم جواب نے بوڑھی عورت کو ٹھنڈا کر دیا ۔ انسان بشر ہے سماجی رابطوں کے بغیر نہیں رہ سکتا پر حقیقت ہے کہ ایک عمر کے بعد وہ مسلسل شوروشغب میں نہیں رہ سکتا۔ بیٹا یا داماد بغرض قومی ادائیگی ’’مشن‘‘ پر جاتے ہیں تو ’’بچے‘‘ نانی یا دادی کے گھروں میں آکر رہتے ہیں۔ اب ’’دو ماہ لگیں یا 6ماہ‘‘ سکول ۔ قاری سبھی ٹھپ سو غلط بات کا صحیح جواب آج بھی شرمندہ کر دیتا ہے۔ عوام بھی سیلاب زدگان کی مدد کر رہے ہیںاور فوج بھی ۔ ’’وزیر اعظم‘‘ کے طویل بیان کا مختصر سطری پیرا ۔ کوئی شک نہیں کہ حکومت کے شانہ بشانہ سبھی ادارے متحرک ہیں ۔ آفت ہی اتنی بڑی آئی کہ اکیلی حکومت سنبھال ہی نہیں سکتی ۔ خوراک کی فراہمی اتنا مشکل کام نہیں تھا اب تعمیر نو سب سے دشوار چیلنج درپیش ہوگا۔ پاکستانی دنیا کی سب سے زیادہ خیرات کرنے والی قوم جو کسی بھی پکار سے پہلے میدان میں جا اترتی ہے مزید براں ہماری قابل فخر ’’سپاہ‘‘ جو ہر بحران ۔ حادثہ میں از خود کمر کس کر دشوار ترین گھاٹیوں ۔ راستوں ۔ دریاؤں میں جا کودتی ہے اس لئے ’’بھی‘‘ نہیں یقینا قوم +سپاہ قدم بہ قدم چل رہے ہیں اور وہ بھی خود سے ۔ لمحہ موجود میں ’’64لاکھ‘‘ انسان مدد کے منتظر ہیں ۔ درجنوں علاقوں تک رسائی ختم ہو جائے تو سوچئیے وہاں کیا حالات ہونگے ؟ بحالی میں ماہ تو سالوں لگ جائیں گے۔ مرکزی شہر کی ایک سٹرک کا گڑھا نہیں بھرا جاتا وہاں دیہات ۔ دُور افتادہ شہروں کا تو بس ؟ ’’10ارب‘‘ ڈالر سے زائد نقصان حتیٰ کہ حکومت کو’’اوورسیز پاکستانیوں‘‘ سے عطیات کی اپیلیں کرنا پڑ گئیں ۔ سچ ہے اِن کے ہمیں ووٹ نہیں ’’پیسے‘‘ چاہیں ۔
سیلاب ۔ سیاسی انتشار اُوپر سے حلق کو چیرتی مہنگائی نے ’’49سالہ ‘‘ ریکارڈ توڑ دیا ۔ ’’27فیصد‘‘ سے زائد شرح اب اور کتنی اُوپر پرواز کرے گی کوئی نہیں جانتا کیونکہ گھنٹوں کے حساب سے قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور مانٹیرنگ ۔ سدباب کا نظام شافی حد تک تو موجود ۔ تعزیری سزائیں بھی موجود چھاپے بھی کبھی کبھار (برقیاتی کیمروں کی روشنی میں ) پڑتے دیکھ لیتے ہیں مگر نتائج’’ ریاست ‘‘یہاں بھی محروم جبکہ رُونمائی کرواتے چہروں کی تجوریاں مالا مال تو کیا بہتر نہیں کہ حکومت خود ہی ٹیکس اور قیمتوں کا آسان ۔ منصفانہ قابل ادائیگی نظام نافذکر دے کہ لوگ خوشی سے ادائیگی کر یں خوشی سے خریدیں یوں بدعاؤں سے بھی سب محفوظ رہیں۔ اِسوقت دو چیزیں خوب بک رہی ہیں (1)سیلاب (2)امدادی سامان۔ دنیا نے اربوں ڈالرز بھجوائے اور مزید کی اپیل جاری ہے وعدے بھی ہیں مگر عجیب بات ہے کہ تمام سامان تمام لوگوں تک پہنچ نہیں پا رہا ۔ وہ گاؤں جہاں ’’عام آدمی۔این جی اوز‘‘ پہنچ گئی تھیں وہاں تمام تر سہولتوں ۔ وسائل کے باوجود حکومتی مدد کیوں نہیں پہنچ پائی ۔ جس ’’چینل‘‘ کو بھی (تقریباً حکومتی حامی ہیں) کھولیں ۔ سیلاب زدہ افراد شکوہ کناں سُنائی دینگے۔ فاقوں ۔ بیماریوں سے ہونیوالی اموات کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ لوگ سراپا سوال ہیں کیا ہم پاکستانی نہیں ۔ ہمارا کیا قصور ہے ؟ قصور تو کِسی کا بھی نہیں بس مقدر ایسے ہیں کہ قوم ۔ فوج ۔ حکومت دوڑ دھوپ میں مگن اورمشکل کے عروج میں پٹرول ۔ ڈیزل بجلی کے بم چلا دئیے ۔ عالمی منڈی میں آئل کی فی بیرل قیمت ’’90‘‘ سے بھی کم ہے۔ ستم بالائے ستم ۔ سیلاب کی وجہ سے ٹرینیں بند تو فضائی (رش بڑھنے کیوجہ سے) کرائے بڑھا دئیے ۔ہمارے پاس ہر مسئلہ کا حل موجود ہے دہشت گردی ڈبل سواری پر پابندی ۔ رمضان قوم سے زکوۃ ۔ صدقات ۔ خزانہ خالی قوم پر اضافی ۔ ناروا ٹیکس ۔ سستا ہونے کے باوجود پٹرول قیمت میں اضافہ ۔ اگر خزانہ سبھی کو خالی ملتاہے تو اِس میں عوام کا کیا قصور ؟ عوام امداد بھی کریں۔ حکومتی مصارف بھی بھریں ۔ اِسکے باوجود بجلی ۔ گیس ، پانی، پٹرول مہنگا، ہر پاکستانی مقروض تر ’’74 سالہ ‘‘ قرضوں کا سود بھرتی قوم کا کیا قصور ؟کون بتائے گا کہ کتنا ہم پر خرچ ہوا ؟ اگر ہوا تو خرچ کے ثبوت کہاں ہیں ؟ قوم کی بگڑتی معاشی حالت کیا غمازی کرتی ہے ؟
’’سائنسدان‘‘ مریخ کی سطح پر آکسیجن بنانے میں کامیاب ۔ ایک طرف یہ اقوام دوسری طرف ہم دنیا کو فلاحی مملکت کے اصول ۔ خدوخال دینے والے ’’دین حنیف‘‘ کے پیروکار ۔ بس الفاظ کی حد تک رہنے والی۔ عملی طور پر زیرو۔سنگین صورتحال کے باوجود حکومت نے آئی ایم ایف سے طے شدہ شرح کے برعکس پٹرولیم لیوی نافذ کر کے سُرعت دکھائی تو ٹینٹ ، دالیں ، چاول وغیرہ بیچنے میں عوام نے ’ایف 16‘‘ سے زائد رفتار سے منافع خوری کی انتہا کر دی۔ اشیائے صرف کی مصنوعی قلت پیدا کرنے میں ہماراکوئی ثانی نہیں۔
بڑا بھلامعلوم ہوا یہ بیان پڑھ کر کہ ’’محفوظ ڈوبے ہوؤں کا ہاتھ تھام لیں ‘‘۔ کِسی نے نقد ۔ کِسی نے سامان۔ کِسی نے وقت اور اکثریت نے تقاریر کے ذریعہ عوام کی ڈھارس بندھائی ۔ لمحہ حاضر میں تو ’’محفوظ‘‘ سہہ اطراف سے خطرات میں ڈوب رہے ہیں ۔ دن دیہاڑے ڈکیتیاں کار چوریاں حتیٰ کہ سٹرک کنارے چلتے ۔بیٹھے لوگ بھی محفوظ نہیں رہے۔ واحد قوم جو ناجائز ٹیکس بھی بھرتی ہے ۔ بھتے بھی دیتی ہے۔ زکوۃ ادا کرتی ہے۔ امدادی کاموں میں سب سے پہلے حرکت میں آنے والے خود کتنے غیر محفوظ حکومت کو چاہیے کہ وہ شہروں کے مابین آمدورفت کے عمل کو کڑی نگرانی میں لائے علاوہ ازیں غیر قانونی مقیم سب لوگوں کو مہلت دئیے بغیر نکال باہر کرے۔ ہم ہیں تو سب حیات ہیں اسلئے ہماری حفاظت ترجیح اول ہونی چاہیے۔ بڑے ڈیم بالخصوص ’’کالا باغ ڈیم‘‘ ہر شہر میں ڈیم ۔ مضبوط تعمیرات ۔ سقم ۔ نقائص سے خالی فیصلے قانون پر کامل عمل درآمد ۔ امیر ۔ غریب کیلئے یکساں ۔ مساوی سلوک ۔ قانون ۔ ریاستی برتاؤ ازحد ضروری ہے۔