جمعۃ المبارک، 26 صفرالمظفر1444ھ،23 ستمبر 2022 ء
کراچی میں بزرگ شہری بھی سٹریٹ کرائمز میں ملوث نکلے
تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔ کیا بزرگوں کے ساتھ پیٹ لگا نہیں ہوتا۔ ان کے سینے میں ارمانوں بھرا دل نہیں ہوتا کہ وہ بھی وہ سب کچھ حاصل کریں جو دوسرے کے پاس ہے۔ حالت سے تنگ آ کر بہتری کی خواہش ان کے ادھ موئے دل میں بھی تڑپتی ہو گی۔ بہت سے بزرگ تو ایسے بھی ہوں گے جن پر گھریلو ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہوں گی بیوی بچوں کے اخراجات ہوں گے۔ اب سب بوڑھے ایک جیسے تو نہیں کہ دیگر محنت کش بزرگوں کی طرح رکشہ چلائیں ٗ ریڑھے کھینچیں۔ محنت مزدوری کریں۔ حق حلال کی روزی کمائیں۔ کئی بزرگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو محنت سے جی چراتے ہوئے ہڈ حرام نوجوانوں کی طرح آرام طلب پیشے میں جانا پسند کرتے ہیں۔ ان کے لیے جرائم کی دنیا پرکشش ہوتی ہے وہ بھی ہاتھ میں ریوالور لے کر منہ پر کپڑے ڈالے شریف شہریوں کو لوٹنے میں آسانی محسوس کرتے ہیں۔ یوں ایک آدھ گھنٹے میں اگر ہزار دو ہزار کی دیہاڑی لگ جائے تو اس میں برا ہی کیا ہے۔ اسی سوچ کے حامل بڑھے بوڑھے بھی اب کراچی میں گن لے کر ’’اپنا بٹوہ ایتھے رکھ‘‘ کہتے ہوئے شریف شہریوں کو لوٹ رہے ہیں۔ کئی ڈکیتی کی وارداتوں میں بھی یہ شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح گرچہ انگلش تو تھرل اور ایکشن فلموں میں ہوتا ہے۔ مگر کیا بعید کراچی سے ہمارے ہاں ایک حقیقی سلسلے کی بنیاد پڑ جائے اور لوگ ’’چھوٹے میاں تو چھوٹے میاں بڑے میاں سبحان اللہ‘‘ کہتے قابو میں آنے والے ان بزرگ ڈکیٹوںکی بھی اچھی طرح خیر خبر لیں۔ ویسے بھی کراچی کے شہری ڈاکوئوں ا ور چوروں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کرنے میں بدنام ہیں۔ گزشتہ روز بھی انہوں نے ایک ڈاکو کو پکڑ کر پہلے تو اسے ٹھنڈے پانی سے اچھی طرح نہلا کر بھگو دیا اور پھر سے اس کے ٹھنڈے جسم پر مکوں،ٹھڈوں،ڈنڈوں کی بارش کر دی۔ شکر ہے وہ زندہ ہی کر پولیس کے ہاتھ لگا۔ اب اگر کوئی بزرگ ڈاکو شہریوں کے ہاتھ لگا تو وہ سوچ لے اس کا کیا حشر ہو گا۔
٭٭٭٭٭
بابر اعظم کرکٹ کے بعد ٹینس میں دلچسپی لینے لگے
لگتا ہے جب سے کرکٹ میں بابر اعظم کی برق رفتار ترقی کو بریک لگنے لگی ہے۔ ان کا بلا رنز اگلنے سے محروم ہونے لگا ہے۔ کرکٹ کی عالمی ریٹنگ میں ان کی تنزلی بھی شروع ہو گئی ہے۔ اب ایسے حالات میں اگر انہوں نے کرکٹ سے ہٹ کر کسی دوسرے کھیل میں بھی دل لگانا شروع کر دیا ہے تو برا کیا ہے۔ ویسے بھی دنیا بھر کے کرکٹ سٹارز دوسرے کھیلوں میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ عام طور پر ایسا فٹ رہنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ کوئی والی بال ،کوئی فٹبال، کوئی باسکٹ بال میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اب بابر اعظم ٹینس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس لیے ٹینس کھیل کر اپنی ٹینشن کم کر رہے ہیں، اپنا غم یا دل کا بوجھ ہلکا کر رہے ہیں تو اس پر تو انہیں:
ان کے غم کو اے میرے دل غم ہستی نہ بنا
زیست مشکل ہے اسے اور بھی مشکل نہ بنا
کہہ کر ہی ہم تسلی دے سکتے ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ اس پر خود بابر اعظم کو بھی غور کرنا چاہیے وہ پاکستان کے ہی نہیں دنیا کے بھی ایک نمبر کھلاڑی تھے اب چوتھے نمبر پر آ گئے ہیں۔ اڑتی چڑیا یہ خبر دیتی ہے کہ ان کامیابیوں سے ان میں عجب سی نخوت آ گئی تھی۔ وہ ذہنی طور پر خود کو ہی آل ان آل سمجھنے لگے تھے ۔ وہ یہ خیال دل سے نکال دیں اور پہلے کی طرح ایک اچھا کھلاڑی بن کر کھیلیں۔ سب کو کھیلنے کا موقع دیں خاص کر ان کو جن کے پاس ٹیلنٹ تو ہے مگر کوئی سفارش نہیں یا وہ آپ کو اچھے نہیں لگتے۔
٭٭٭٭٭
ادھر آئو گلے لگو۔ سی سی پی او لاہور کو وزیراعلیٰ پنجاب کی تھپکی
جی ہاں جب بندہ تابعدار ہو تو اسے گلے لگانے کو جی چاہتا ہی ہے’’ آ لگ جا گلے دلربا‘‘ کہنا ہی پڑتا ہے۔ اب اس کا اثر کیا پڑتا ہے۔ اس وقت جب محفل ہر طرف رنگ پر ہو اس بارے میں سوچنا فضو ل ہے۔ کیونکہ کوئی بھی رنگ میں بھنگ ڈالنا پسند نہیں کرتا۔ ویسے بھی گلے ملنے سے سب گِلے جاتے رہے۔ والی بات بھی زباں زد خاص و عام ہے۔ یہ سب اظہار محبت اس لیے کیاجا رہا ہے کہ سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کو وفاقی حکومت نے پنجاب سے واپس طلب کیا مگر چونکہ وہ حکومت پنجاب کی گڈ بک میں شامل ہیں اس لیے انہوں نے پس و پیش سے کام لیا تو وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی فوراً ان کی مدد کو پہنچے۔ پھر جو ہوا سب نے دیکھا کہ پولیس افسر کو وزیر اعلیٰ شاباش کہہ کر ہلہ شیری دے رہے ہیں کہ ڈٹ کر رہیں کوئی کچھ نہیں کر سکتا میں تمہیں پنجاب سے جانے نہیں دوں گا۔ ایک طرف حکمرانوں کی پولیس سے محبت و عقیدت کا یہ حال ہے دوسری طرف پنجاب کے عوام خاص طور پر لاہور کے شہری اسی پولیس کے ہاتھوں نکو نک آئے ہوئے ہیں۔ اخبارات ہوں یا الیکٹرانک میڈیا ہر جگہ ’’بشر دے رہا ہے بشر کی دہائی‘‘ لوگ پولیس کی کارکردگی سے نالاں ہیں۔ چوری، ڈکیتی، اغوا، قتل اور زیادتی کی روز افزوں وارداتوں سے پریشان ہیں۔ کیا کبھی وزیر اعلیٰ نے اس حوالے سے پولیس کے اعلیٰ افسران کو لتاڑا ہے۔ گلے لگانے کی بجائے دھتکارا ہے کہ یہ سب ان کے ہوتے ہوئے کیسے ہو رہا ہے۔ ایسا اگر کسی اور صوبے یا کہہ لیں بلوچستان میں کسی وزیر اعلیٰ نے کیا ہوتا تو اسے باغی اور غدار سمیت نجانے کیا کچھ کہا جاتا۔ پنجاب میں مرکز گریز ایسی پالیسی کو پنپنے دینا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اس طرح باقی صوبوں میں بھی ہونے لگا تو وفاق کا خدا ہی حافظ ہو گا۔
٭٭٭٭٭
وزارت صحت نے بھارت سے مچھر دانیاں خریدنے کی اجازت طلب کر لی
ایک تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب ہمارے بھارت کے ساتھ تعلقات ایسے نہیں کہ ہماری اس سے تجارت قائم ہو۔ پھر بھی کچھ لوگ نجانے کیوں بھارت سے کسی نہ کسی بہانے تجارت کے بہانے ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ ابھی چند روز قبل تک پورے ملک میں ٹماٹر اور پیاز کی قلت نے کیسا طوفان اٹھا رکھا تھا۔ لوگ پیاز اور ٹماٹر کے لیے پاگل ہوئے جا رہے تھے۔ پھر ایران اور افغانستان سے اس کی تجارت شروع ہوئی تو لوگوں کو قرار آ گیا اور ان دونوں کے ریٹ گرنے لگے۔ اس وقت بھی کئی لوگوں نے بھارت سے یہ اشیا منگوانے کی بات کی۔ بے شک بھارت سے مال منگوانے میں کئی فائدے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کا خرچہ کم پڑتا ہے۔ وقت بھی تھوڑا لگتا ہے۔ مگر کیا اس وقت بھارت کے ساتھ تجارت ہمارے حق میں ہے۔ کیا اس سے کشمیریوں کا دل نہیں جلے گا جن کو بھارت زبردستی طاقت کے زور پر مکمل اپنا غلام بنا چکا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ جن ممالک (مشرق بعید) میں ملیریا کی وجہ سے مچھر دانیاں وافر مقدار میں تیار ہوتی ہیں ان سے خریدی جائیں اور پھر اپنے مچھر دانی تیار کرنے والے ملکی یونٹس جو ہاتھ پر ہاتھ دھرے قیمتیں اور بڑھنے کے چکر میں بیٹھے ہیں ان کو بھی 2 یا 3 شفٹوں میں کام لگایا جائے اور مچھروں کی طرح جن خون چوسنے والے حاجی حضرات نے مچھر دانیاں سٹور کر رکھی ہیںاچھے داموں فروخت کے لیے ۔ان کے گودام توڑ کر یہ مال نکال کر سیلاب زدہ علاقوں میں تقسیم کیا جائے۔جہاں ان کی ضرورت ہے۔