وزیراعظم جنرل اسمبلی میں کشمیر کا بھی ذکر کریں
پاکستان کو اس وقت سیلاب کی وجہ سے جس تباہی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اس کے باعث ہونے والے جانی و مالی نقصان کے ازالے کے لیے مختلف ممالک جس طرح پاکستان سے تعاون کررہے ہیں وہ خوش آئند ہے لیکن عالمی سطح پر ایک ایسا نظام تشکیل دیا جانا چاہیے جو بڑے اور ترقی یافتہ ممالک کو پابند کرے کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے برے اثرات سے بچنے کے لیے چھوٹے اور ترقی پذیر ممالک کی مدد کریں۔ ایسی صورتحال صرف پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ کئی اور ممالک بھی اس سے دوچار ہیں۔ حال ہی میں اپنے دورہ¿ پاکستان کے موقع پر اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ پاکستان دوسرے ممالک کی وجہ سے آنے والی موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہورہا ہے۔ اس موقع پر انھوں نے بین الاقوامی برادری سے یہ اپیل بھی کی تھی کہ وہ سیلاب زدگان کی بحالی کے سلسلے میں پاکستان کی مدد کرے۔
اقوامِ متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے وزیر اعظم محمد شہباز شریف ان دنوں امریکا میں ہیں اور انھوں نے وہاں امریکا کے صدارتی نمائندہ برائے موسمیاتی تبدیلی جان کیری سے ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات کے دوران وزیراعظم نے موسمیاتی تبدیلی کے بحران سے متعلق آگاہی پید اکرنے اور اس کے حل کے لیے جان کیری کی خدمات کو سراہا اور موسمیاتی تبدیلی کے مسئلہ سے نمٹنے کے لیے امریکی حکومت کے اہم کردار کو تسلیم کیا۔ وزیراعظم نے پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر امریکا کی فوری امداد پر اظہار تشکر کیا اور نہ صرف فوری بحالی اور امدادی کاوشوں بلکہ اس کے بعد تعمیرنو اور بحالی کے مرحلہ کے لیے بھی بین الاقوامی برادری کی مسلسل مدد کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کو غیر معمولی قدرتی آفت کا سامنا ہے۔ وزیراعظم نے پیرس معاہدے کے تحت موسمیاتی تبدیلی کے مسئلہ سے نمٹنے کے لیے مالی معاونت کی فراہمی، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور استعداد کار سے متعلق امداد کے حوالہ سے پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کے لیے کیے جانے والے وعدوں کی تکمیل میں امریکا کے قائدانہ کردار کی اہمیت پر زور دیا۔
اس ملاقات میں ایک مثبت پیشرفت یہ بھی ہوئی کہ شہباز شریف اور جان کیری نے موسمیاتی تبدیلی کے مسئلہ سے نمٹنے اور توانائی کے شعبہ میں مذاکرات آگے بڑھانے پر اتفاق کیا۔ جان کیری نے پاکستان کے عوام اور حکومت کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور سیلاب کی وجہ سے درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے امریکی حکومت کی طرف سے مسلسل حمایت کا اعادہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ امریکا مضبوط بنیادی ڈھانچہ کی تعمیرنو اور دوسری معاونت کی شکل میں پاکستان کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے بحران سے بچا جا سکے۔ امریکی نمائندہ¿ خصوصی نے ملاقات کے بعد سماجی رابطے کے ذریعے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ امریکا کی جانب سے بحران سے نمٹنے کے لیے 55 ملین ڈالر کی انسانی امداد روانہ کی جا چکی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور اس کے نتیجے میں درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم کے علاوہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھی امریکا میں ہیں جہاں انھوں نے اقلیتوں کے حقوق پر ہونے والے ایک اجلاس میں شرکت کی۔ اس موقع پر بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت جو کبھی سیکولر ملک تھا ہندو بالادستی والا ملک بن رہا ہے۔ بھارت میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے ہندوتوا نظریے کو فروغ دیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے بھارت میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں۔ وہاں مساجد شہید کی گئیں اور اسلامی تاریخ کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔ وزیر خارجہ نے بھارت کے غیر قانونی زیرتسلط جموں و کشمیر کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس اکثریتی مسلم علاقے کو اقلیت میں تبدیل کر رہا ہے۔ دنیا بھارت کے کھلم کھلا امتیازی اقدامات کو نظرانداز کر کے سو رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کشمیر کے حوالے سے اسلامی تعاون تنظیم کے رابطہ گروپ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اسلامی تعاون تنظیم کا شکرگزار ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اس نے مسلسل مثبت کردار ادا کیا۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق نیویارک میں اجلاس مقبوضہ جموں و کشمیر کے سکیورٹی کے ماحول میں انسانی حقوق کی صورتحال کو سمجھنے میں معاون ہوگا۔
پاکستان کے لیے مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ کسی بھی دوسرے مسئلے سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اسی لیے پاکستان ہر موقع پر نہ صرف اس مسئلے کا ذکر ضروری سمجھتا ہے بلکہ بین الاقوامی برادری سے اس سلسلے میں مسلسل مطالبات بھی کرتا رہتا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں ہم سے تعاون کرے۔ وزیراعظم شہباز شریف کو چاہیے کہ وہ جنرل اسمبلی میں اپنے آج 23 ستمبر کے خطاب کے دوران موسمیاتی تبدیلی، حالیہ سیلاب اور متاثرین کی بحالی کے ساتھ مقبوضہ وادی کا بھی خصوصی ذکر کریں اور دنیا کو احساس دلائیں کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تب تک خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا ہے۔ اس موقع پروزیراعظم کو یہ بھی واضح کرنا چاہیے کہ بھارت نے 5 اگست 2019ءکے ناجائز اقدامات کے ذریعے خطے کے امن و سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش کی ہے، لہٰذا اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کے پلیٹ فارمز سے عالمی برادری بھارت پر دباو¿ ڈالے کہ وہ اپنے ناجائز اقدامات کو واپس لے کیونکہ اقوامِ متحدہ اور دیگر اہم بین الاقوامی اداروں کی نظر میں مقبوضہ وادی ایک متنازعہ علاقہ ہے۔