• news
  • image

جہاد کے بجائے تحریک ....یاللعجب!

خان صاحب نے فرمایا ہے کہ وہ ہفتہ (کل) سے اپنی تحریک شروع کر رہے ہیں۔ 
نوٹ فرمانے والوں نے نوٹ نہیں فرمایا کہ کتنی اہم اور قابل ذکر تبدیلی آ گئی ۔ پچھلے چھ ماہ میں یہ پہلی بار ہے کہ خان صاحب نے ”تحریک“ کا لفظ استعمال کیا ہے ورنہ اب تک وہ حقیقی آزادی کی جنگ، جہاد، خونی انقلاب اور سری لنکا کے واقعات کے ”ری پلے“ کی بات کرتے تھے۔ ہر جلسے میں ، ہر پریس کانفرنس میں جو اکثر دن میں تین ، تین بار ہوتی تھی، جنگ، جہاد ، خونریزی، سری لنکا کے الفاظ ان گنت بار استعمال کرتے تھے۔ اب ایسا کیا ہوا ہے کہ یہ سارے لفظ انہوں نے اٹھا کر ایک طرف رکھ دئیے اور ”تحریک“ کا نام لیا جو بالعموم جمہوری سیاستدان برپا کیا کرتے ہیں۔ کیا ہوا ہے، یہ تو پتہ نہیں لیکن یہ پتہ ہے کہ کچھ تو ہوا ہے۔ 
شاید یہ پتھر بہت بھاری تھے، اٹھا کر رکھ دئیے۔ بھاری پتھر بالعموم رکھنے سے پہلے چومے جاتے ہیں یعنی محاورہ یوں ہے کہ بھاری پتھر چوم کر رکھ دیا۔ لیکن خان صاحب ٹھہرے روایت شکن، انہوں نے چومے بغیر ہی یہ چاروں پتھر اٹھا کر رکھ دئیے ہوں گے۔ 
________
ابھی یہ واضح نہیں لیکن کل یا شاید آج ہی واضح ہو جائے کہ تحریک سے کیا مراد ہے۔ لانگ مارچ اگر ہوا تو کل سے تو نہیں ہو گا۔ ایسا تو تب ہو گا جب اندر ہی اندر اس کی تیاری مکمل کر لی جاتی لیکن اندر سے آنے والی اطلاعات مظہر ہیں کہ فی الحال تیاری کے نام پر کچھ نہیں ہے، ابھی تو خان صاحب نے پارٹی رہنماﺅں کو ”فنڈ“ مہیا کرنے کا حکم دیا ہے۔ خان صاحب کے ہر جلسے پر ڈیڑھ کروڑ روپیہ خرچ ہوتا ہے، لانگ مارچ کے لیے فنڈنگ کچھ زیادہ درکار ہو گی۔ ہو سکتا ہے وہ کل لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کریں۔ ہو سکتا ہے وہ کل ملک بھر مظاہروں، دھرنوں، ناکہ بندیوں کا حکم دیں یعنی ملک گیر لاک ڈاﺅن۔ 
گویا پنجاب میں پرویز الٰہی کی حکومت ”جام“ کر دیں گے۔ اس لاک ڈاﺅن سے وفاق متاثر نہیں ہو گا، اپنی ہی حکومتیں مفلوج ہو کر رہ جائیں گی۔ یہ اندیشہ بر بنائے مفروضہ ہے اس لیے کہ ملک جام کرنے کے لیے جن ”انقلابیوں“ کی ضرورت ہوا کرتی ہے، وہ خان صاحب کے پاس نہیں ہیں۔ خان صاحب کے پاس دوسری قسم کے انقلابی ہیں، وہی جھوم جھوم کے ناچو آج ،گاﺅ آج والے۔ 
ایک عقدہ سا پڑ گیا ہے جس کی گرہ کھلنے کے لیے کل کا انتظار کرنے کے سوا چارہ نہیں۔ 
_________
ادھر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے کہا ہے کہ دھرنا دیا تو ہم دھونی دیں گے۔ دھرنے کی مناسبت سے دھونی کا انتخاب بھی خوب ہے۔ رانا صاحب نے نہیں بتایا کہ دھونی کس شے کی دیں گے۔ حرمل (اسپند) کی یا لوبان کی ۔ سب سے اچھا لوبان یمن کا ہوتا ہے۔ کوڑیالہ لوبان اور حرمل تو ہمارے ہاں بھی خوب ہوتی ہے۔ اپنے لکھنو¿ والے رنگیلے پیا جان عالم واحد علی شاہ تو زعفران کی دھونی دیا یا لیا کرتے تھے۔ ان کی حقیقی آزادی کا مارچ لکھنو¿ سے چلا اور کلکتہ کے مٹیا محل میں جا کے تھما۔ رانا صاحب جان عالم ہیں نہ رنگیلے پیا۔ زعفران کی دھونی تو وہ کبھی نہیں دینے والے۔ ان کی کنجوسی سے کچھ بعید نہیں کہ سرخ مرچوں کی دھونی ہی دے ڈالیں۔
_________
 تبدیلی صرف ”تحریک“ کے لفط سے ہی ظاہر نہیں ہوتی۔ کچھ اور معاملات پر بھی ”سکوت“ اختیار کیا گیا ہے جو کچھ کچھ ناقابل فہم اورکچھ کچھ قابل فہم ہے۔ مثلاً دس بارہ دن ہو گئے انہوں نے قوم کو یہ نہیں بتایا کہ قبر میں پہلا سوال کس کے بارے میں ہوگا۔ ویسے ”انقلابیوں“ کے ہاں یہ سوال زباں زد عام ہے کہ پہلا سوال عمران خان کا ساتھ کیوں نہیں دیا کے بارے میں ہوگا۔ اس کے علاوہ دس دن ہو گئے‘ انہوں نے شریعت کا یہ کلمہ بھی نہیں دہرایا کہ عمران خان کا ساتھ نہ دینا یا ان سے اختلاف کرنا شرک ہے اور شرک وہ گنا ہ ہے کہ ہر گناہ کی معافی ہو سکتی ہے‘ شرک کی نہیں۔ اس سکوت کے پیچھے کیا ہو سکتا ہے؟ شاید شریعت کا کوئی اور کلیہ ہے۔
_________
مشہور ہالی وڈ اداکارہ انجیلا جولی پاکستان آئی ہوئی ہیں۔ سیلاب متاثرین سے ہمدردی اور ان کی مدد بھی کر رہی ہیں۔
پاکستان کے مہمان اداکار اور اداکارائیں کہاں ہیں؟ سیلاب زدگان کی مدد تو ایک طرف رہی‘ ہمدردی کیلئے ایک بھی سامنے آیا نہ آئی۔
تحقیقات سے معلوم ہوا کہ وہ حقیقی آزادی کے جہاد میں مصروف ہیں۔ انجیلا جولی نے عالمی برادری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سیلاب سے تباہی ناقابل تصور حد تک زیادہ ہے۔ یہی بات اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی کہی۔
 ابھی ان دونوں معزز ہستیوں کی نظر اس تباہی پر نہیں پڑی جو سیلاب کی تباہی سے بھی بڑی ہے اور اس ”بربادی عظمیٰ“ کا نام مفتاح اسماعیل ہے۔ سیلاب نے دو کروڑ کو برباد کیا۔ اس بربادی نے 20 کروڑ کو اجاڑ ڈالا۔ باقی بچے دو کروڑ تو وہ مفتاح اساعیل کے شیدائی اور مفتاح اسماعیل ان پر شاد ہیں۔ دو کروڑ اشرافیہ اور نیم اشرافیہ 20 کروڑ مکھی مچھر!
پی ٹی آئی نے عدالت میں عرضی گزاری ہے کہ جن آٹھ حلقوں پر الیکشن کمشن 16 اکتوبر کو الیکشن کرانا چاہتا ہے۔ یہ الیکشن منسوخ کئے جائیں۔
حیرت ہے پی ٹی آئی کے ”مبصرین“ بتا رہے تھے کہ ان آٹھ کے آٹھ حلقوں پر عمران خان دوتہائی اکثریت بلکہ بعض کے خیال میں 85 فیصد ووٹوں کے ساتھ جیت رہے تھے۔ کیا عرضی گزاری کہ یہ بے مثال فتح قبول نہیں؟’ کیا ”اندر کھاتے“ سے کچھ برعکس نتائج کا خدشہ نہیں تھا؟
_________
ایران میں ایک نوعمر بچی کے قتل کے بعد سے شروع ہونے والے مظاہرے بہت زیادہ پھیل گئے ہیں۔اس وقت اڑھائی درجن شہروں‘ بشمول تہران میں یہ مظاہرے ہو رہے ہیں۔نو عمر مہسا امینی کو تہران پولیس نے دوپٹہ اوڑھنے پر مار مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
مظاہرے ناقابل یقین مناظر دکھا رہے ہیں۔ لوگ پولیس کا دوبدو مقابلہ کر رہے ہیں۔ ایک افسر مظاہرین پر سیدھی گولیاں برسا رہا تھا۔ لوگوں نے اسے قابو کر لیا اور لاتوں‘ ٹھڈوں پر رکھ لیا۔ ملک کے چوٹی کے تمام رہنماﺅں کی تصاویر پھاڑی جا رہی ہیں۔ بڑے بڑے جلوسوں میں حجاب والی خواتین کی بڑی تعداد بھی شریک ہے اور ایسی لڑکیوں کی بھی کمی نہیں جو آگ کے الاﺅ میں اپنے دوپٹے اتار کر پھینک رہی ہیں۔
پرتشدد فضا گھمبیر ہو رہی ہے اور ایران ایک بار پھر شدید عدم استحکام میں جا رہا ہے اور مایوس کن بات یہ ہے کہ اس بار مظاہرین کو کچلنے کیلئے روسی امداد بھی پہلے جیسے حجم کے ساتھ دستیاب نہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن