• news

ہائیکورٹ نے عمر فاروق کیخلاف  ایف آئی اے کی درخواست خارج کر دی

لاہور (نوائے وقت رپورٹ) لاہور ہائی کورٹ نے عمر فاروق ظہور کیخلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے ایڈیشنل سیشن جج کے حکم کے خلاف دائر درخواست کو خارج کر دیا۔ شہزاد اکبر نے ایف آئی اے کو ظہور کی سابقہ اہلیہ صوفیہ مرزا  کیخلاف  ان کی مدد کرنے کا حکم دیا تھا۔
لاہور ہائیکورٹ نے تفصیلی حکم نامے میں کہا ہے کہ عمر فاروق کے خلاف ایف آئی آر میں وارنٹ اس حقیقت کے باوجود جاری کیے گئے کہ مجسٹریٹ کی جانب سے انہیں دبئی میں غیر ملکی پتہ پر کوئی سمن یا نوٹس جاری نہیں کیا گیا جہاں وہ اس وقت مقیم تھے۔عدالت نے قانونی آفیسر کے اس اعتراض کا بھی مشاہدہ کیا کہ فاروق ایف آئی اے کی جانب سے فوجداری مقدمے کے اندراج سے بہت پہلے ملک چھوڑ گیا تھا، مذکورہ وارنٹ متعلقہ مجسٹریٹ نے جلد بازی میں اور اس سلسلے میں فراہم کردہ مطلوبہ معیار کو پورا کیے بغیر جاری کیے تھے۔عدالتی حکم نامے میں ظہور کے وکیل کے دلائل کو نوٹ کیا گیا ہے کہ یہ ایک خاندانی معاملہ تھا اور متعلقہ وقت پر معاملات کی قیادت کرنے والے افراد کی طرف سے دباؤ ڈالنے کی وجہ سے اسے فوجداری کارروائی میں تبدیل کر دیا گیا تھا اور چونکہ ان کا مؤکل سفیر ہے، لائبیریا کے سفارت خانے کے ذریعے اس کی خدمات کو یقینی بنائے بغیر اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی تھی، دلچسپ بات یہ ہے کہ انہی وارنٹس کی بنیاد پر ایف آئی اے نے ظہور کے خلاف انٹرپول سے ریڈ نوٹس حاصل کیے تھے۔لاہور ہائی کورٹ میں ظہور کی جانب سے دائر کی گئی ایک درخواست میں عدالت نے تاجر کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے اور اس کے خلاف ریڈ نوٹس جاری کرنے کے عمل کو معطل کر دیا تھا۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے اس حکم کو صرف ای سی ایل کی حد تک تبدیل کر دیا، تاہم، ظہور کی جانب سے دائر توہین عدالت کی درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ لاہور ہائیکورٹ کی واضح ہدایات کے باوجود ایف آئی اے ظہور کا نام ریڈ لسٹ سے نکالنے پر ٹال مٹول کر رہی ہے۔صوفیہ مرزا تقریباً 14 سال سے ظہور کے خلاف حراستی تنازع میں ملوث ہے، سپریم کورٹ نے اس معاملے میں تقریباً 100 سماعتیں کی ہیں۔اداکارہ صوفیہ مرزا اور عمر فاروق کی جڑواں بیٹیاں زینب اور زنیرہ، جو دونوں 15 سال کی ہیں دبئی میں اپنے والد کے ساتھ رہتی ہیں اور انہوں نے انٹرویوز میں کہا ہے کہ وہ دبئی میں رہ کر خوش ہیں، تاہم صوفیہ مرزا نے کہا کہ وہ جڑواں بچوں کی تحویل تک اپنی لڑائی جاری رکھیں گی۔
ہائیکورٹ

ای پیپر-دی نیشن