جنرل اسمبلی میں وزیراعظم پاکستان کی بھارت کو کشمیر پر مذاکرات کی پیشکش
وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ بھارت اگر ہم سے کشمیر کے معاملہ پر بات چیت کرنا چاہتا ہے تو ہم تیار ہیں۔ پاکستان اور بھارت بات چیت کے ذریعے باہمی تنازعات طے کر سکتے ہیں، بطور پڑوسی ہمیں ساتھ رہنا ہے، ہم بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی چاہتے ہیں۔ نیویارک میں یواین جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے دوران اور امریکی جریدے بلومبرگ کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم ہمیشہ کیلئے پڑوسی ہیں اور اپنی صلاحیتیں اور وسائل ایک دوسرے سے لڑنے کے بجائے لوگوں کی بھلائی کیلئے استعمال کرنے چاہئیں۔ ہم بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک سے پرامن تعلقات چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا خطے میں امن و استحکام کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غیرقانونی اور یکطرفہ اقدامات سے امن عمل متاثر ہوا‘ مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ماورائے عدالت قتل کیا جارہا ہے۔ انہوں نے اس امر کا تقاضا کیا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں پانچ اگست 2019ءکے غیرقانونی اقدامات واپس لے۔
وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ جنوبی ایشیاءمیں امن کا انحصار مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسئلہ کے حل پر ہے۔ کشمیریوں کیخلاف بھارتی بربریت نے کشمیر کو دنیا کا سب سے بڑا فوجی علاقہ بنا دیا ہے۔ بھارت مسلم اکثریت والے کشمیر کو ہندو اکثریت میں تبدیل کرنے کیلئے غیرقانونی تبدیلیاں کر رہا ہے۔ بھارت کو سمجھنا ہوگا کہ دونوں ممالک ایٹمی قوت ہیں‘ جنگ آپشن نہیں۔ صرف پرامن مذاکرات ہی مسئلہ کا حل ہے۔ میں بھارت کے ساتھ بیٹھ کر مسئلہ کشمیر پر بات چیت کرنے کو تیار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پرامن افغانستان دیکھنے کا بھی خواہش مند ہے۔ افغانستان کو تنہائی کا شکار کرنے سے مسائل بڑھیں گے۔ وزیراعظم شہبازشریف کے بقول 20ویں صدی کے معاملات سے توجہ ہٹا کر 21ویں صدی کے مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ جنگیں لڑنے کیلئے زمین ہی باقی نہیں رہے گی۔ انہوں نے اس امر کا اعادہ کیا کہ یواین سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق تنازع کشمیر کے حل تک ہم کشمیری عوام کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ انہوں نے مسئلہ فلسطین کے حل اور اسلامو فوبیا کے عالمی رجحان کے آگے بند باندھنے کیلئے اقوام متحدہ سے کردار بروئے کار لانے کا تقاضا کیا۔
یہ امر واقعہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت بھارت کا پیدا کردہ مسئلہ کشمیر ہی علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے سنگین خطرہ بن چکا ہے جبکہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 74 سال سے جاری اسکے مظالم روکنے کیلئے اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری نے اب تک کوئی مو¿ثر کردار ادا نہیں کیا۔ نتیجتاً ہندوتوا کے ایجنڈے پر گامزن بھارت کے حوصلے مزید بلند ہوئے ہیں۔ اس نے کشمیریوں کے استصواب کے حق کیلئے یواین جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی منظور شدہ درجن بھر قراردادوں کو عملی جامہ پہنانا تو کجا‘ انہیں پرِکاہ کی حیثیت بھی نہیں دی اور کشمیر کے بھارتی اٹوٹ انگ ہونے کی ہٹ دھرمی برقرار کھی ہے۔ 1948ءمیں خودمختار ریاست جموں و کشمیر میں اپنی افواج داخل کرکے اسکے غالب حصے پر ناجائز تسلط جمانے کا اصل مقصد پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کا تھا اور یہ مقصد وہ کشمیر کی جانب سے پاکستان آنیوالے دریاﺅں کا پانی روک کر یا مون سون کے دوران سارا فالتو پانی پاکستان کی جانب چھوڑ کر پورا کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے جبکہ پاکستان نے شروع دن سے ہی کشمیر پر یہ اصولی موقف اپنایا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام نے خود کرنا ہے اس لئے اقوام متحدہ کی جانب سے انہیں دیئے گئے استصواب کے حق کو تسلیم کرکے بھارت مقبوضہ وادی میں کشمیری عوام کیلئے رائے شماری کا اہتمام کرے مگر بھارت نے آج تک کشمیریوں کو استصواب کے حق سے محروم رکھا ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ استصواب کی صورت میں کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرینگے۔
بھارت نے کشمیریوں کی آواز دبانے کی نیت سے ہی ان پر مظالم کا طولانی سلسلہ شروع کیا مگر کشمیریوں کے پائے استقلال میں کبھی ہلکی سی بھی لرزش نہیں آئی اور وہ سینہ سپر ہو کر گزشتہ 74 سال سے بھارتی سکیورٹی فورسز کے مظالم کا ہر ہتھکنڈہ برداشت کررہے ہیں اور ایک لاکھ سے زائد اپنے پیاروں کی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی عفت مآب خواتین کی عصمتوں کی قربانیاں بھی تاریخ کے ریکارڈ میں شامل کرچکے ہیں۔ پاکستان بھی انکے اسی صادق جذبے کی لاج رکھتے ہوئے انکی بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد میں ان کا دامے‘ درمے‘ سخنے اور سفارتی محاذ پر بھرپور ساتھ دے رہا ہے جس کا بھارت سرکار نے بدلہ لینے کیلئے پاکستان پر تین جنگیں مسلط کیں اور اسے سانحہ¿ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کیا جس کے بعد وہ باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہوگیا اور اس مقصد کے تحت اس نے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرکے 1974ءمیں باقاعدہ ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کر دیا۔ چنانچہ پاکستان کو بھی اپنی سلامتی کے تحفظ کی خاطر ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنا پڑی۔ اس سلسلہ میں پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا کریڈٹ ذوالفقار علی بھٹو سے میاں نوازشریف تک ملک کے تمام سول اور فوجی سربراہان حکومت کو جاتا ہے اور اسی کریڈٹ نے اب تک بھارت کو پاکستان کیخلاف باقاعدہ جنگ کرنے سے روکا ہوا ہے۔ اسکے باوجود پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھارتی سازشوں میں کمی نہیں آئی اور وہ کبھی آبی دہشت گردی‘ کبھی اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سیاسی عدم استحکام کی فضا پیدا کرکے اور کبھی اپنے تربیت یافتہ دہشت گردوں کے ذریعے پاکستان میں دہشت و وحشت کا بازار گرم کرکے اسکی سلامتی کو زک پہنچانے کی سازشوں میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے۔
پاکستان کی سلامتی کیخلاف یہ سارے بھارتی عزائم اسکے پیدا کردہ مسئلہ کشمیر کے ساتھ ہی جڑے ہوئے ہیں اور اس مسئلہ کے حل پر ہی علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کا دارومدار ہے جبکہ بھارت نے تین سال قبل پانچ اگست 2019ءکو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے اور اسے بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنا کر مسئلہ کشمیر مزید گھمبیر بنا دیا ہے حد تو یہ ہے کہ بھارت دنیا بھر کی نمائندہ قیادتوں اور سلامتی کونسل سمیت نمائندہ عالمی اور علاقائی اداروں کا کوئی بھی دباﺅ قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوا اور گزشتہ 1146 روز سے مقبوضہ وادی میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ اگر ان مظالم کے حوالے سے بھارت کے حوصلے بلند نظر آتے ہیں تو عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کا دہرا کردار اور انکی بے عملی ہی اسکی بنیادی وجہ ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ہر سال پاکستان مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرکے نمائندہ عالمی قیادتوں سے اسکے حل کیلئے کردار بروئے کار لانے کا تقاضا کرتا ہے مگر جنرل اسمبلی کا ہر اجلاس اس معاملہ میں محض نشستند‘ گفتند‘ خوردند‘ برخاستند ہی ثابت ہوتا ہے۔ اور تو اور، گزشتہ تین سال کے دوران سلامتی کونسل کے تین ہنگامی اجلاس بھی کشمیر کی پانچ اگست سے پہلے والی حیثیت بحال کرانے کے معاملہ میں اثرپذیر نہیں ہو سکے۔
بھارت نے عالمی قیادتوں کی بے عملی سے ہی فائدہ اٹھا کر اپنے ملک میں اسلامو فوبیا کا بازار گرم اور مسلمان اقلیتوں کا ناطقہ تنگ کر رکھا ہے جس کا وزیراعظم شہبازشریف نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں تقریر کے دوران بطور خاص ذکر بھی کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی مو¿ثر نمائندہ عالمی ادارے کی حیثیت تب ہی تسلیم ہو پائے گی جب اسکے روبرو آنیوالے اسکے رکن ممالک کے باہمی تنازعات کے حل کیلئے اسکی قراردادوں اور فیصلوں پر انکی روح کے مطابق عمل درآمد ہوگا جبکہ کشمیر‘ فلسطین‘ افغانستان اور میانمار کے مسلمانوں سے متعلق مسائل کے حل کیلئے یہ نمائندہ عالمی ادارہ اب تک غیرمو¿ثر ہی ثابت ہوا ہے۔ اندریں حالات اقوام متحدہ کے رکن ممالک بالخصوص بڑی طاقتوں کی قیادتوں کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ دنیا کے تنازعات حل کرانے کیلئے اب اقوام متحدہ کو کیوں فعال نہیں بنا پائے۔ علاقائی اور عالمی امن کی خاطر کشمیر‘ فلسطین‘ افغانستان اور اسلامو فوبیا کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر انکی روح کے مطابق عملدرآمد اسکے مو¿ثر رکن ممالک کی ترجیح اول ہونی چاہیے۔