محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ڈاکٹرز حضرات کی نمائندہ تنظیم ہے۔ فیروزپور روڈ پر واقع پی ایم اے ہاﺅس میںاکثر علمی اور ادبی تقریبات منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ باعث مسرت ہے کہ امسال پی ایم اے نے مخدوم الاولیا،سلطان الاصفیا حضرت ابوالحسن سید علی بن عثمان ہجویری کے عرس پاک کے موقع پرایک عمدہ علمی اور فکری نشست کا اہتمام کیا۔اس باوقار تقریب کا انعقاد پی ایم اے لاہور کے صدر پروفیسر ڈاکٹر محمداشرف نظامی اور فیملی میڈیسن ایجوکیشن سنٹر کی روح رواں ڈاکٹر شاہد شہاب کی کاوشوں سے ہوا۔فیملی فزیشنز کے لیے علمی اور ادبی ماحول کی فراہمی میں ان دونوں شخصیات کی خدمات قابل تحسین ہیں ۔تلاوت کلام پاک کی سعادت ڈاکٹر محمد صادق نے حاصل کی اور نعت رسول مقبول جناب محمد ایاز نے پیش کی۔ راقم السطور کو عالم اسلام کی عظیم شخصیت حضور فیض عالم کی حیات پاک اور تعلیمات کے حوالے سے گفتگو کی دعوت دی گئی۔گفتگو کا موضوع جرمنی کے شہر برلن کی ایک بڑی یونیورسٹی میں خانقاہ سید ہجویری پر لکھا گیا پی ایچ ڈی کا مقالہ تھا۔جس میں مقالہ نگار نے کئی پہلوﺅں کو مد نظر رکھتے ہوئے تحقیق کو مکمل کیا۔مقالہ کی اہم بات یہ تھی کہ پسماندہ ممالک میںخدمت خلق کے میدان میں یہ خانقاہ جو عظیم کام کر رہی ہے وہ ترقی یافتہ ممالک میں حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔گزشتہ سال روزنامہ نوائے وقت کے ایک کالم میں اس پر تفصیل سے لکھا جا چکا ہے ۔ڈاکٹر اشرف نظامی نے آپ کی شاندار تبلیغی،سماجی خدمات کو ہدیہ تبریک پیش کیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ ایسے پروگرام ہر ماہ باقاعدگی سے منعقد کیے جائیں۔ شرکاءسیمینار نے اس حقیقت پر متفق تھے کہ حقیقی صوفیاءکی تعلیمات پر عمل کر کے ہی معاشرے کے اخلاقی زوال کو روکا جا سکتا ہے۔ ایک کامیاب سیمینار کے انعقاد پر منتظمین مبارکباد کے مستحق ہیں۔
ادارہ معین الاسلام کے تعاون سے شہر لاہور کے مختلف مقامات پر چار علمی، تبلیغی اور فکری پروگرام ملک عزیز کے معروف ماہر تعلیم پروفیسر محبوب حسین صاحب کی زیر صدارت منعقد ہوئے جن میں پروفیسر ڈاکٹر علی اکبر الازہری ، پروفیسر محمد نصراللہ معینی ، ڈاکٹر شفاقت شیخ، پروفیسر نجم الدین اور راقم کو خطاب کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔کثیر تعداد میں حاضرین مستفیض ہوئے۔سید ہجویر کا شمار برصغیرپاک و ہند کے اولین مبلغین اسلام میں ہوتا ہے۔مفکر پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے بڑے پیارے انداز میںآپ کو خراج عقیدت پیش کیا
سیدِ ہجویر مخدومِ امم
مرقدِ او پیر سنجر را حرم
خاکِ پنجاب از دمِ او زندہ گشت
صبحِ ما از مہرِ او تابندہ گشت
آپ کی تصنیف ’کشف المحجوب‘ تصوف کی لازوال اور شہرہ آفاق کتاب ہے ۔پوری دنیا میں مقبول ہوئی اور دنیا کی کئی زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے۔پروفیسر نکلسن نے انگریزی ترجمہ کیا جو کئی بار چھپ چکا ہے۔انسان سازی ،کردار سازی اور شخصیت سازی کا مجرب نسخہ ہے۔مثلاً اس کتاب کے ابواب صحبت اور آداب صحبت،کھانے کے آداب ، چلنے پھرنے کے آداب،بولنے اور چپ رہنے کے آداب، سفر و حضر کے آداب،کھانے کے آداب اور سوال و ترک سوال تربیتی اصولوں کا خزانہ ہیں۔مسائل شریعت و طریقت کے ساتھ ساتھ آپ کی تعلیمات آج بھی عبرت و نصیحت کے لیے بے مثال ہیں۔ فرمایا جو علم کو دنیاوی عزت و وجاہت کے لیے حاصل کرتا ہے در حقیقت وہ عالم کہنے کا مستحق نہیںکیونکہ دنیاوی عزت و جاہ کی خواہش کرنا بجائے خود جہالت ہے۔
آج جب ہمارا معاشرہ اخلاقی زوال کا شکار ہے ، دینی اوراخلاقی اقدار پامال ہو رہی ہیں،قوم تقسیم در تقسیم ہوتی جا رہی ہے، مذہبی، مسلکی اور سیاسی اختلافات زوروں پر ہیں، بات دلیل کی بجائے گالی تک جا پہنچی ہے۔ یہی وقت ہے کہ صوفیا کے مستند تربیتی اصولوں کو عام کیا جائے، ان کو نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ پر امن معاشرہ معرض وجود میں آ سکے۔ عظیم مشائخ نے انسان دوستی کا سبق دیا، برداشت اور رواداری کا درس دیا،جھوٹ اور بے ایمانی کو جڑ سے اکھاڑا، صبر کی تلقین کی ،لقمہ حلال کی اہمیت بتائی۔ صرف درس ہی نہیں دیا عملی طور پر کر کے دکھایا۔ رواداری اور عظمت انسانیت کا اندازہ فارسی کے ایک شعر سے لگایا جا سکتا ہے جو حضرت ابوالحسن خرقانی کی خانقاہ کے صدر دروازے پر لکھا ہوا ہے۔ اس شعر کا ترجمہ ہے کہ یہاں آنے والے سے کھانا پوچھو اس کا مسلک اور مذہب نہ پوچھو۔یہی صوفیا اور خانقاہی نظام کے بنیادی اصول تھے۔ بقول شاعر
بڑھتی ہوئی نفرت کومحبت سے مٹا دے
دنیا کو بھی جینے کا یہ انداز سکھا دے