وزیر اعظم کا خطاب اور کشمیر پر بھارت کا عتاب
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جنرل اسمبلی میں پاکستانی وزیر اعظم تقریر کرنے کے لیے کھڑا ہو اور وہ ہو بھی کشمیری نسل کا تو وہ اپنی زبان سے مسئلہ کشمیر کا ذکر نہ کرے۔وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے بھی کشمیر کا حق ادا کردیا ۔انہوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ناجائزبھارتی قبضے کے بخئے ادھیڑ کر رکھ دیئے ۔ انہوں نے برملا کہا کہ تنازع کشمیر خطے میں تین بڑی جنگوں کا باعث بن چکا ہے اور اب جب کہ پاکستان اور بھارت دونوںایٹمی اسلحے اور میزائلوں سے لیس ہوں تو خدا نخواستہ مستقبل کی جنگ پورے خطے کے لیے تباہی و بربادی کا باعث بن سکتی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت نے جموں و کشمیر پر غیر آئینی، غیر قانونی اورناجائز قبضہ جما رکھا ہے ۔کشمیری مسلمان تقسیم ہند سے پہلے مہاراجہ کے خلاف آزادی کی جدو جہد شروع کر چکے تھے اور اس مزاحمت میں اس وقت تیزی آگئی جب بھارت نے تقسیم برصغیر کے اصولوں کو پامال کرتے ہوئے اپنی فوج وادی میں داخل کر دی۔ بھارت کو کشمیر سے جوڑنے کا راستہ ریڈ کلف مشن نے اپنے فیصلے میں ڈنڈی مار کر فراہم کیا تھا ۔تقسیم کا اصول یہ تھا کہ پنجاب کے مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں شامل ہونگے اور فیروز پور ،امرتسر،جالندھر اور پٹھانکوٹ پاکستان کے حصے میں آئیں گے ۔مگر انگریز سرکار نے جاتے جاتے برصغیر پاک و ہند میں فساد کے بیج بو دیئے ۔ فساد کا یہ بیج آج انتہائی خطر ناک صورت اختیارکرچکا ہے ۔وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں بھارتی بربریت کا پردہ چاک کیا ، خواتین کی اجتماعی عصمت دری پر احتجاج کیا ۔انہوں نے دنیا کو بتایا کہ بھارت کشمیری نوجوانوں کو لاپتہ کرکے گولیوں سے بھون کر شہید کر دیتا ہے ۔اور احتجاجی مظاہرین پر پیلٹ گولیوں کی بوچھاڑ کر دیتا ہے جس سے مائوں کی گودوںمیں بچے بھی بینائی سے محروم ہو چکے ہیں ۔ بوڑھوں کو بھی نہیں بخشا جاتا اور ان کے سینے چھلنی کر دیئے جاتے ہیں ،وزیر اعظم نے بھارت کے اس فاشست ڈرامے کا ذکر کیا جو اس نے پانچ اگست2019ء کو دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر رچایا تھا ۔بھارت کو کوئی حق حاصل نہیں تھا کہ وہ متنازع خطے کی حیثیت تبدیل کرے کیونکہ وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت پابند تھا کہ کشمیریوں کو ایک استصواب رائے میں اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے دے۔ یہ استصواب اقوام متحدہ کی نگرانی میں آزدانہ ،غیر جابندارانہ اور شفاف انداز میں منعقد ہونا تھا ۔بھارت نے پون صدی تک یہ استصواب نہیں ہونے دیا اور کشمیریوں کو جبری طور پر غلام بنائے رکھا ۔اور بالآخر سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو ٹھکراتے ہوئے اور اپنے ہی آئین کو پامال کرتے ہوئے کشمیرکی جغرافیائی حیثیت تبدیل کرکے اسے اپنے اندرضم کرلیا ۔اس نے یہاں تک اکتفانہیں کیا بلکہ ریاست جموں و کشمیر کی مسلم اکثریتی آبادی کی حیثیت کوتبدیل کرنے کیلئے وادی کے تین حصے بخرے کردیئے ۔وزیر اعظم پاکستان نے عالمی راہنمائوں کو بتایا کہ بھارت نے سارے ہتھکنڈے فوجی قوت کے بل بوتے پر انجام دے رہا ہے۔ جموں وکشمیر کی چھوٹی سی وادی میں 9 لاکھ بھارتی فوج پہنچائی جا چکی ہے جس سے یہ علاقہ دنیا کی سب سے بڑی فوجی چھائونی میں تبدیل ہو چکا ہے۔کسے معلوم نہیں ہے کہ بھارت نے گذشتہ چار برسوں میں کشمیر میں ظلم وستم کا ہر حربہ آزمالیا ہے ،اس نے وادی جموں وکشمیر کے لوگوں کو دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا ہے ۔ایک سنگین اور سخت گیر کرفیو نافذ ہے ۔ٹیلی فون اور موبائل بند ہیں۔وائی فائی انٹرنیٹ کی سہولت منقطع ہے اور کشمیر کے مظلوم اورمجبور عوام اپنی بے کسی اور بے بسی کی کیفیت سے بیرونی دنیا کو آگاہ نہیں کرسکتے ،اس طرح کشمیر دنیا کی سب سے بڑی جیل کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔بھارت نے عالمی انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں اور اقوام متحدہ کے تمام اصولوں کو پامال کر دیا ہے ۔
وزیر اعظم نے دنیاکے لیڈروں کوبتایاکہ پاکستان اور بھارت ہمسایہ ملک ہیں ،انہوں نے ہمیشہ ایک ساتھ رہنا ہے ۔ان دونوں ملکوں کا جغرافیہ تبدیل نہیں ہو سکتا، اس لیے دونوں ملکوں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ آپس میں لڑتے بھڑتے رہیں گے یا قیام امن کے لیے کوشش کریں گے ۔وزیر اعظم نے کہا کہ ماضی کی جنگوں سے دونوں ملکوں نے کچھ حاصل نہیں کیا سوائے تباہی اور بربادی کے ۔ان جنگوں نے سرحد کے دونوں طرف کے عوام کوبہت زیادہ اور ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔جبکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ ہم اپنے وسائل اسلحہ ذخیرہ کرنے میں نہ جھونکتے اور ان وسائل کو بچوں ،بوڑھوں ،جوانوں اور عورتوں کی بہتری کے لئے استعمال کرتے ۔دونوں ملک کے عوام صحت اور تعلیم کے شعبوں میں پسماندہ ہیں اور اس کی وجہ وہ جنگیں ہیں جو عوام پر مسلط کی گئیں اور ان جنگوں نے دونوں ملکوں کے ترقیاتی وسائل کو چاٹ لیا ۔
وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی کے ایوان کے سامنے اعلان کیا کہ وہ قیام امن کی خاطر کیا کچھ کر سکتے ہیں ۔وہ اپنے بھارتی منصب سے ہر مسئلے پر بات چیت کے لیے تیار ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں کہ مسائل ،جنگ اور طاقت کے زور پر حل نہیں ہو سکتے ۔انہیں مستقل اور پائیداربنیادوں پر حل کرنے کے لیے باہمی گفتگو ضروری ہے ۔ بھارت کو کشمیر کا مسئلہ سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں کی روشنی میں حل کرنا چاہئے تاکہ خطے میں قیام امن کی راہ ہموار ہو سکے اور دونوں ممالک اپنے عوام کی فلاح وبہبود کے منصوبوں پر توجہ دینے کے قابل ہو سکیں ۔