منگل، 1444ھ، 27 ستمبر 2022ء
لندن میں وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب کے ساتھ پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بدتہذیبی
یہ ہماری منفی سیاست کی بے ہودگی اور بدتہذیبی کا بدترین مظاہرہ ہے جو گزشتہ روز لندن میں دیکھنے کو ملا۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر بیرون ملک چند پاکستانی اگر اس طرح کسی خاتون سیاستدان کے پیچھے لائوڈ سپیکر پر نعرے لگائیں گے تو اس کا اثر وہاں کے لوگوں پر کیا پڑے گا۔ احتجاج کرنا اپنی جگہ مگر خواتین کے معاملے میں شائستگی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ لندن میں جس طرح یہ نوجوان آوارہ لونڈوں کی طرح مریم اورنگ زیب کے اردگرد منڈلاتے رہے بے ہودہ نعرے لگاتے اور جملے کستے رہے وہ بہت شرمناک حرکت تھی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس ہنگامہ میں چند خواتین بھی شامل تھیں جن میں بعض نے حجاب پہنا ہوا تھا۔ کیا ایسا کرنا زیب دیتا ہے۔ نوجوانوں کی تو بات چھوڑیں وہ اپنے قائد عمران خان کی زبان بول رہے تھے جو حدود و قیود سے تہذیب و اخلاق سے کوسوں دور تھی۔ یہ واقعی
لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی سوبگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا
کہنے والی نوبت آ چکی ہے۔ ا س سے ملک سے باہر ملک کا نام بدنام ہو رہا ہے۔ کل اگر کوئی ایسی ہی حرکت پی ٹی آئی کی کسی خاتون رہنما کے ساتھ کرے گا تو کیا وہ قابل برداشت ہو گی۔ خدارا اپنا گند باہر نہیں پھیلائیں۔ جو کرنا ہے اپنے ملک میں ہی کریں۔ باہر تو عزت احترام کے ساتھ اچھا پاکستانی ہونے کا ثبوت دیں۔اب اگر اس احتجاج کو ہراسمنٹ کا نام دے کر ان مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف کوئی ایکشن ہوا تو بدنامی اپنے ملک کی ہو گی اس لیے ہمیں ایسی بچگانہ بے ہودہ حرکات سے اجتناب کرنا چاہیے۔
٭٭٭٭٭
نواب زادہ نصر اللہ خان کی19 ویں برسی منائی گئی
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے جانے کی کمی کوئی اور پورا نہیں کر سکتا۔ یہ لوگ واقعی
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
ہوتے ہیں۔ یہ اپنی ذات میں انجمن ہوتے ہیں۔ نرم خو گرم گفتار، دوستدار ، ملنسار، بالغ نظری ان کی صفات ہوتی ہیں۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک خوبصورت نام نوابزادہ نصراللہ خان کا ہے جو اپنی روایتی پھندنے والی ترکی ٹوپی کی علیحدہ شناخت کے ساتھ دور سے پہچانے جاتے تھے۔ مرحوم ایک نستعلیق قسم کے انسان تھے۔ سیاہ شیروانی منہ میں پان، حقہ کی کش لگاتے جب وہ سیاست پر گفتگو کرتے گویا اک دبستاں کھل جاتا۔ وہ ساری زندگی اپوزیشن کی سیاست کرتے رہے اپنے خاندانی اثاثے بیچ کر دوستوں پر اور سیاست پر لگادئیے۔ حکمرانوں کے مظالم بھی سہے۔ پولیس سے مار بھی کھائی اور جیل بھی گئے۔ ہر مشکل وقت میں سیاسی آویزش سے ہٹ کر مذاکرات کی راہ بھی دکھائی۔ اپنے تو اپنے غیر بھی ان پر اعتماد کرتے تھے ان میں یہ خاصیت تھی کہ وہ حکمرانوں اور اپوزیشن کے متحارب دھڑوں کو بالآخر مذاکرات کی میز پر کھینچ لاتے تھے۔ ان باتوں کے علاوہ وہ ایک خوبصورت اور حساس دل رکھنے والے شاعر بھی تھے گرچہ انہیں شاعری کا موقع کم ملا مگر انہوں نے جو بھی لکھا کمال کا لکھا۔ ضیاء الحق کی آمریت کے دور میں ان کے یہ اشعار
کتنے بے درد ہیں صرصر کو صبا کہتے ہیں
کیسے ظالم ہیںکہ ظلمت کو ضیاکہتے ہیں
ان کے ہاتھوں یہ اگر خون کے چھینٹے دیکھیں
مصلحت کیش اسے رنگ حنا کہتے ہیں
اور اس کے علاوہ ان کی ایک اور غزل جو کشمیری مجاہدین کے لیے تھی
پھر شور سلال میں سرود ازلی ہے
پھر پیش نظر سنت سجاد رلی ہے
دو حق و صداقت کی شہادت سر مقتل
اٹھو کہ یہی وقت کا فرمان جلی ہے
تادیر مظلوموں اور مجبوروں کے دل کی آواز بنی رہے گی۔
٭٭٭٭٭
ڈار کی واپسی سے ڈالر کی اڑان تھم گئی
لیجئے جناب تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آ گیا۔ مسلم لیگ (نون) کی حکومت نے گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لیے اپنا آخری پہلوان بھی اکھاڑے میں اتار دیا ہے۔ اس معاشی پہلوان کی دہشت کا یہ عالم ہے کہ ڈار کی آمد سے قبل ہی ڈالر نے واپسی کی راہ پکڑ لی ہے اور گزشتہ روز ان کی آنے سے قبل ہی ڈالر 6 روپے 40 پیسے گھنٹوںکے بل گر گیا۔ خدا کرے یہ سلسلہ جاری رہے۔ دوسری طرف اپوزیشن یعنی پی ٹی آئی والے نجانے کیوں پریشان ہیں ایک طرف وہ اسحاق ڈار کو کاغذ کا سپاہی قرار دیتے ہیں۔ کوئی ناکام وزیر خزانہ کہہ کر دل کو تسلی دیتا ہے مگر اس کے باوجود ان کی وطن واپسی پر یہ حواس باختہ نظر آنے لگے ہیں۔ جس کے جی میں جو آتا ہے بول رہا ہے۔ جو کام عدالتوں کا ہے یا الیکشن کمشن کا ہے وہ ان کو کرنے دیں۔ آپ بس تماشہ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ اگر اسحاق ڈار پاکستانی معیشت کی ڈولتی کشتی کو سنبھالا دیتے ہیں تو برا کیا ہے۔ یہ ملک ہمارا ہے یہ معیشت ہماری ہے۔ کوئی تو آ کر اسے سنبھالے۔ آخر پی ٹی آئی والوں نے بھی تو 4 برس میں 4 سے زیادہ وزیر خزانہ بدلے۔پی ٹی آئی والوں کو خوش ہونا چاہیے کہ اگر یہ شیر بھی ناکام رہا تو ان کا کام اور آسان ہو جائے گا۔ وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت معاشی بحران پر قابو پانے میں ناکام رہے تاکہ عمران خان کی حکومت کیلئے راستہ صاف ہو۔ ہاں البتہ اگر اسحاق ڈار کامیاب ہوئے تو پھر کیا ہو گا۔ یہ بات اہم ہے۔ لہٰذا عوام کہیں کسی اور ڈاکٹر سے علاج کے لیے رجوع نہ کر لیں۔
٭٭٭٭٭
پرویز خٹک نے 3 دنوں میں حکومت گرنے کی پیش گوئی کر دی
سندھ میں پیپلز پارٹی کے منظور وسان کی اور راولپنڈی کے شیخ رشید کی پیش گوئیوں کے بعد اگرچہ لوگوں کا اعتماد ایسی بے سروپا باتوں سے اٹھ چکا ہے مگر اب پشاور سے پی ٹی آئی کے پرویز خٹک کی پیش گوئی سن کر جی چاہتا ہے کہ چلیں اس سیاسی پری پیکر پہلوان کی باتوں پر بھی آنکھیں بند کر کے اعتبار کر لیتے ہیں۔ اگرچہ اس دور میں کسی پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ مگر کیا کریں۔ دل کے ہاتھوں مجبور بہت سے لوگ تو پرویز خٹک کی بات پر ان کے منہ میں گھی شکر ڈالنے پر تیار بیٹھے ہیں۔ ان کا بس چلے تو تین روز کیا وہ ایک آدھ دن میں ہی موجودہ حکومت کو اٹھا کر باہر پھینک د یں۔ اگر پرویز خٹک کی یہ پیش گوئی پوری ہو گئی تو پھر ان بے چارے جھوٹے فراڈی عاملوں نجومیوں ستارہ شناسوں اور جادوگروں کا کیا ہو گا جن کی ہر بات سو فی صد غلط ہوتی ہے۔ ان کا توکاروبار ہی ختم ہو جائے گا۔ قسمت بدلنے کے لاکھوں شوقین دربار پرویزی میں حاضری دینے کے لیے ان کے گھر کے باہر جمع ہو جائیں گے۔ یوں ہو سکتا ہے ان کا اپنا کاروبار چمک اٹھے اور وہ سیاسی جھمیلوں سے جان چھڑا کر پوری یکسوئی کے ساتھ یہ کام سنبھال لیں ۔ اگر یہ پیش گوئی غلط نکلی تو تب کچھ بھی نہ ہو گا۔ پرویز خٹک نہایت اطمینان سے
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
کہہ کر اسے ستاروں کا الٹ پھیر قرار دے کر اس سے جان چھڑائیں گے۔اس لیے بہتر ہے خاموش رہیں۔ پہلے بھی ہمارے درجنوں سیاستدان مذہبی ہوں یا سیاسی جماعتوں کے قائد ایسی درجنوںپیش گوئیاں ناکام ہونے کے بعد بھی دھڑ لے سے سیاسی میدان میں موجود ہیں۔ ان سے کس نے جا کر پوچھا ہے جو پرویز خٹک سے جا کر کوئی پوچھے گا کہ ان کی پیش گوئی کا الٹ کیوں ہو رہا ہے۔