روزانہ کی بنیاد پر ذہنی ورزش کی ضرورت
آج کل ہر سمت ، ہر سو ایک بے اطمینانی کی سی کیفیت ، عدم برداشت کی لہر پہلے سے موجود سیاسی بے یقینی کی فضا کو اور پراگندہ کر رہی ہے اور سکون جو کبھی خاصہ ہوا کرتا تھا ہمارے انہی علاقوں میں اور روایات جو فروغ پاتی تھیں ان سے ہم کوسوں دور جا چکے ہیں۔شاید اس لیے کہ ہم نے اپنی مادی ترقی کے لئے برانڈز کے حصول کیلئے، ڈاکے اور جرائم کا نہ رکنے والا سلسلہ، ہراسمنٹ بے رحمانہ پر تشدد واقعات ،سٹیٹس کے لئے اعلی نسل کی گاڑیوں کے حصول کیلئے، جدید ہائو سنگ سوسائٹیوں میں رہائش کیلئے ہر چیز کو تیاگ دیا ہے اور نفسا نفسی کے اس دور میں ایک دوسرے کو پاوں تلے روند کر آگے نکلنے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلا چل نکلا ہے اور نہ جانے یہ عدم برداشت کی دوڑ کب اور کہاں رکے۔یہ کلچر کب کا ختم ہو چکا ، اب جائنٹ خاندانی کلچر بھی ختم ہونے کو ہے۔میرے ذاتی خیال میں جس طرح ہم روزانہ کی بنیاد پر اپنی جسمانی فٹنس کو برقرار رکھنے کیلئے روزانہ جم جانا ،ورزش کرنا ضروری گردانتے ہیں بعینہ اسی طرح ہمیں اپنی گردن سے اوپر دماغ تک کے حصے کی بھی روزانہ کی طرز پر ورزش کی اشد ضرورت ہے۔ اس ذہنی ورزش کی روزانہ کی بنیاد پر ورزش عمر کے بڑھنے کے ساتھ زیادہ ضرورت اس لئے ہوتی ہے کے ایک طرف تو عمر کے ڈھلنے سے اعصابی کمزوری غالب آنا شروع کر دیتی ہے ، دوسری طرف مسائل کا ایک ہجوم ہمارا گھیرائو کرتا ہوا نظر آتا ہے اس کیلئے ہمیں اپنا ذہنی قبلہ درست رکھنے کیلئے روزانہ کی بنیاد پر اپنی سوچوں کو ایک اخلاقی جواز ہر قیمت پر دینے کیلئے اپنے اندر اخلاقیات ، برداشت حسن سلوک اور اپنی قوت ارادی کو روزانہ کی بنیاد پر بہتر کرنے کی ، انسانیت کو بنیاد بنا کر اپنی سوچوں اور ذہن کو ایک مرکز پر فوکس کرنا ہو گا۔کوشش پیہم کو اپنانے کیلئے ، قوت ارادی کو بہتر بنانے کیلئے اسلامی کتب بینی سے لیکر مطالعے کی عادت کو زیادہ اپناتے ہوئے اپنے دہنی افکار پریشاں کو ایک مرکز پر لانے کیلئے کیا کھویا کیا پایا کی بنیا پر اپنے سابقہ طور و اطوار کو درست کرنے کی روزانہ کی بنیاد پر ایک یوگا ٹائپ ورزش بھی کی جانی چاہئے۔ان ذہنی مرتکز کرنے والی اپنی کوششوں کو ارادی طور پر اگر روزانہ کی بنیاد پر مطالعہ کی بھی مدد حاصل ہو ، تو ذہنی شکست و ریخت سے بچاجا سکتا ہے ۔ روحانی وابستگی ،قسمت پر یقین، کوشش اور سعی پر بھروسہ اور ہر قیمت پر دوسروں کی بہتری، کسی بھی لحاظ سے کسی کمزور کی ہر قیمت پر مدد کرنے کی روزانہ کی بنیاد پر اس سوچ کوپروان چڑھانا حتی کہ اپنی ذات کی نفی تک کو اپنی سوچوں کو فروغ دینے کیلئے ہمیں اپنے آپ کو اس ذہنی ورزش کے عمل سے گزارنا ہو گا۔قوت ارادی اور اسکی دنیا کے بڑے بڑے رہنماوں میں جہد مسلسل اور آج تک دنیا کے تمام بڑے آدمیوں کے سوانح حیات کا بغور مطالعہ بھی اس ذہنی ورزش کی روزانہ کی بنیاد پر ایک حصہ لازم ہے۔ بے شک نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا، لیکن آج کی اس ٹیکنالوجی اور روز کی بنیاد پر بدلتی ہوئی دنیا میں اپنے مقصدحیات کو فوکس کرنا اور کسی قسم کی عملی کاوشوں میں کمزوری ظاہر نہ ہونے دینا ہی کامیابی کی دلیل ہے۔ صحیح منزل کے تعین کے بعد، بشمول گھریلو مسائل کے انبار میں اس پر مستقل مزاجی سے کھڑا رہنا آج کے دور میں کوئی معمولی بات نہیں۔ اس کیلئے ہرکولیس جیسی ذہنی قوت درکار ہوتی ہے۔کسی بھی بڑے کام کی کامیابی میں سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہے مسقل مزاجی جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ مقصدحیات کا درست سمت میں ہونااور اس پر عمل پیرا ہونا روزانہ کی بنیاد پر اس پر قائم رہنے کا تقاضہ کرتا ہے۔ ابولکلام آزاد سے کسی نے پوچھا کے زندگی میں کونسا کام مشکل ہے، تو انہوں نے کہا بھئی زیست محال است۔لیکن جینا تو ہر ایک کو ہے،لیکن کچھ تو جانے والے کا نقش پا نظر آنا چاہئے، کچھ تو ہو جس کا تذکرہ ہو۔اپنی سوچوں کو فتح کرنا، اپنے افکار کی دنیا میں صحیح سفر کر لینا ایک کار ہائے عظیم ہے کیونکہ ان سوچوں کا مقصد حیات اپنی ذات سے بلند ہونا، آج کے اس مادی خودغرضی کے ماحول میں اپنی ذات کی نفی کرنا ہی مقصد حیات ہونا چاہئے اور اس کیلئے روزانہ کی بنیاد پر دماغ کی ذہنی ورزش کا مدعابھی یہی ہونا چاہیے ۔