• news

حیات و تعلیماتِ حضرت داتا گنج بخشؒ


اولیا اللہ میں سے حضورشہنشاہ اولیا ،شمس الکاملین حضرت سید علی بن عثمان ہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخش رحم اللہ علیہ کا نام مبارک خاص اہمیت کا حامل ہے ۔حضرت داتا گنج بخش رحم اللہ علیہ کی ہستی ان اولیائے کرام اور صوفیائے کرام میں سے ایک ہے ۔جنہوں نے بر صغیر پاک و ہند کے ظلمت کدوں کو نورِ اسلام سے منور کیا اور اپنے قول و فعل سے حضور اکرم ﷺ کا اسوہ حسنہ لوگوں کے سامنے پیش کیا ۔ 
یہ بزرگان دین کی بے لوث مخلصانہ کوششوں کا نتیجہ تھا کہ بر صغیر میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ان بزرگان دین میں سے حضرت سیدنا علی بن عثمان الہجویری رحم اللہ علیہ کی بھی ایک ذات ہے۔حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیر ی رحم اللہ علیہ جیسے عظیم المرتبت بزرگ نے بھی سیدنا حضرت داتا علی ہجویری رحم اللہ علیہ کے روحانی فیض سے مالا مال ہو کر نوے لاکھ افراد جو کہ کفر و شرک کی ضلالت میں ڈوبے ہوئے تھے کو سرکار مدینہ ﷺ کا غلام بنا دیا۔ 
آپ کا اسم گرامی علی ، کنیت ابو الحسن ،لقب داتا گنج بخش، والد ماجد کا اسم گرامی عثمان بن علی،وطنی نسبت الجلابی الغزنوی ثم الہجویری ہے ۔جلاب اور ہجویر افغانستان کے غزنی شہر کے مضافات میں دوبستیاں ہیں آپ کے والد ماجد جلاب کے اور والدہ ماجدہ ہجویر کی رہنے والی تھیں والد صاحب کی وفات کے بعد آپ مستقل طورپر ننھیال منتقل ہو گئے اس لئے اپنے آپ کو جلابی ثم الہجویری لکھتے ہیں ۔آپ کی والدہ ماجدہ کی قبر غزنی میں آپ کے ماموں تاج الاولیا کے مزارشریف کے ساتھ ہے ۔آپ کے مرشد حضرت ابو الفضل محمد بن حسن ختلی رحم اللہ علیہ ہیں ۔ان کا سلسلہ طریقت نو واسطوں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے ۔درست قرینہ یہ ہے کہ آ پ بر صغیر میں آمد کے ساتھ ہی اس لقب''گنج بخش'' سے مشہور ہو گئے تھے ۔
گنج بخش فیض عالم مظہر نورِ خدا 
نا قصاں را پیرکامل کاملاں را رہنما
آپ نے زندگی کا زیادہ تر حصہ علمی و روحانی غرض سے عراق ،شام ،بغداد، پارس، طبرستان ،خوزستان، کرمان ،طوس اور حجاز کا سفر کیا ۔صرف خراسان میں آپ نے تین سو مشائخ سے ملاقات کی ۔ایک دن حضرت داتا گنج بخش رحم اللہ علیہ کے مرشد نے آپ کو حکم دیا کہ لاہور جائو چنانچہ حضرت سید علی بن عثمان ہجویری رحم اللہ علیہ لاہور روانہ ہوگئے ۔جس دن لاہور پہنچے رات ہو گئی تھی ۔ صبح اٹھے تو دیکھا کہ لوگ ایک جنازہ اٹھائے شہر سے باہر لاآرہے ہیں ۔ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ جنازہ حضرت شیخ حسن زنجانی کا ہے ۔ آپ کو اس وقت اپنے پیر کامل حضرت ابو الفضل محمد بن حسن ختلی رحم اللہ علیہ کے حکم کی حکمت سمجھ میں آئی ۔
 آپ کی دو شادیاں والدین نے کی تھیں پہلی بیوی کی وفات کے بعد گیارہ سال بعد دوسری شادی کی مگر ایک سال بعد یہ بیوی بھی فوت ہو گئی ۔ حضرت سید علی بن عثمان ہجویری رحم اللہ علیہ المعروف داتا گنج بخش علم و فضل میں مجتہدانہ شان رکھتے تھے ۔ اسلام کے عظیم مبلغ حضرت سید علی ہجویری کی بہت اہم تصنیف ''کشف المحجوب'' کو اولیا کرام اور صوفیائے کرام میں ہمیشہ سے مقبولیت حاصل رہی ہے۔ اس تصنیف کی عظمت اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوجاتا ہے کہ اس دنیا کی متعدد زبانوں میں اس کے تراجم شائع ہوچکے ہیں اور یہ کتاب تصوف کے دستور کی حیثیت رکھتی ہے یہ کتاب حکمت و دانائی کا انمول خزینہ ہے۔ حضرت سید ابو الحسن علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش اپنے مرشد کے حکم ہی سے لاہور تشریف لائے۔ آپ اپنے مرشد شیخ ابوالفضل کا تذکرہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''میرے مرشد علم تفسیر اور علم حدیث میں بڑے اونچے پائے کے عالم تھے '' وہ تصوف میں حضرت جنید بغدادی کے پیرو تھے''۔ 
حضرت علی ہجویری شریعت و فقہ کا بڑا علم رکھتے تھے آپ نے صوفیائے کرام کو فقہ کی تعلیم دی۔ آپ کو صحابہ کرام اور خصوصا حضرت ابوبکر صدیق سے بہت محبت اور عقیدت تھی آپ ان کو تصوف و طریقت کا امام مانتے اور فرماتے تھے کہ تصوف کا آغاز حضرت ابو بکر صدیق سے ہوا۔حضرت علی ہجویری نے طریقت و تصوف پر نثری منظوم کتب تصنیف کیں لیکن کشف المحجوب آپ کی وہ عظیم کتاب ہے جس کی اہمیت اور عظمت کا اعتراف صوفیائے کرام نے ہر دو میں کیا اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ حضرت نظام الدین چشتی کے اس ارشاد سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ''جس شخص کا کوئی مرشد نہ ہو اسے کشف المحجوب'' کے مطالعہ سے مرشد مل جائے گا۔ حضرت نظام الدین چشتی کا فرمانا یہ تھا کہ مرشد کی عدم موجودگی میں کشف المحجوب اس کی وہی رہنمائی کرے گی جو ایک پیر مرشد اپنے مرید کی کرتا ہے۔اس عظیم عظمت والی کتاب میں سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں ۔
٭اس سے اچھی بات کس کی ہوسکتی ہے جو ایک نیک عمل اور اللہ کی طرف دعوت دے
 ٭قوت گویائی جتنی بڑی نعمت ہے اتنی ہی خرابی کا سرچشمہ بھی ہے اس لئے حضرت محمد ﷺ نے فرمایا '' اپنی امت کے متعلق میں جس چیز سے ڈرتا ہوں وہ اس کی زبان ہے ''۔گفتار کی مثال شراب کی مانند ہے یہ عقل کو سست کر دیتی ہے اور جسے ایک لت پڑ جائے وہ اسے چھوڑ نہیں سکتا، چنانچہ اہل طریقت نے بھی یہ جانتے ہوئے کہ گفتار باعث آفت ہے ، بجز و ضرورت بات کرنے سے ہمیشہ گریز کیا ہے وہ ہر کلام کے آغاز اور انجام کو جانچتے ہیں۔اگر اظہار جانب حق ہو تو اظہار کرتے ہیں ورنہ خاموش رہتے ہیں کیونکہ ان کا یہی عقیدہ ہے اور ایمان ہے'' حق تعالی تمام اسرار کو جاننے والا ہے اور وہ بدبخت ہے جو اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس حوالے سے ارشاد ربانی ہے '' کیا وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے اسرار اور ان کی سرگوشیوں کو نہیں سنتے (حالانکہ ایسا نہیں)ہم سنتے ہیں اور ہمارے فرشتے انہیں لکھتے ہیں۔
 اللہ تعالیٰ کی بارگاہ ایزدی میں دعا ہے کہ ہم سب کو مقبول بندوں کے نقش قدم پر چلنے اور دنیااور آخرت میں سرخروئی کی توفیق سعید مرحمت فرمائے آمین

ای پیپر-دی نیشن