مذہب پسند ایران بمقابلہ آزاد خیال مغرب
ایران ان دنوں بائیس سالہ مھسا امینی کی موت کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر خبروں کو موضوع بنا ہوا ہے۔ وہ رواں ماہ کی 16 تاریخ کو جن حالات میں مریں ان کے لیے ایرانی پولیس کے ایک خاص دستے کو ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔ مرنے والی خاتون کے لواحقین نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کا انتقال پولیس کے تشدد کے نتیجے میں ہوا۔ پولیس کا وہ دستہ جس کی حراست میں مھسا کی موت واقع ہوئی گشت ارشاد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 2005ء میں قانون نافذ کرنے والے اداروں میں شامل اس دستے کا کام ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کرنا ہے جو عوامی مقامات پر ایرانی قانون کے مطابق اسلامی لباس نہیں پہنتے۔ اطلاعات کے مطابق، مھسا کو بھی اسی سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا کہ انھوں نے ریاست کے طے کردہ ضابطے کے مطابق سر کو نہیں ڈھانپا ہوا تھا۔ گشت ارشاد کا موقف یہ ہے کہ دورانِ حراست مھسا کو دل کا دورہ پڑا جس کے باعث وہ دو دن کوما میں رہنے کے بعد دم توڑ گئیں۔
مذکورہ واقعے کے بعد ایران کے مختلف شہروں میں حکومت کے لباس سے متعلق طے کردہ ضوابط اور پیشہ ورانہ فرائض کی نوعیت کے باعث اخلاقی پولیس کے طور پر شہرت رکھنے والے دستے گشت ارشاد کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مظاہرین پر پولیس کے احتجاج اور اس دوران ایک شہری کے مارے جانے کے حوالے سے متضاد خبریں بھی سامنے آئی ہیں جن کی حکومت کی طرف سے تردید کی گئی۔ جن شہروں میں احتجاجی مظاہرے زیادہ ہوئے وہ ایران کے اس علاقے میں ہیں جہاں کرد آبادی کی اکثریت ہے۔ کرد کمیونٹی ہی سے تعلق رکھنے والی مھسا کی موت اور احتجاجی مظاہروں پر ہونے والے مبینہ تشدد کے حوالے سے اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔ ادھر، امریکا کے محکمہ خزانہ نے اس واقعے کو بنیاد بنا کر گشت ارشاد اور ایران کے دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سات سینئر عہدیداروں پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔
جواں سال مھسا کی موت یقینا ایک افسوس ناک واقعہ ہے اور اس کی تحقیقات بھی ہونی چاہئیں کہ آیا گشت ارشاد اس واقعے کے لیے ذمہ دار ہے یا نہیں لیکن مغربی ممالک اور ادارے اس واقعے کو جس طرح ایران کی مذہب پسندی اور اسلامی قوانین و ضوابط پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ تو بس ایک بہانہ ہے، ان ممالک اور اداروں کو اصل مسئلہ ایرانی حکومت کے مذہب کی طرف جھکاؤ سے ہے ورنہ اگر یہ سب کچھ فرد کی آزادی کی وجہ سے ہورہا ہوتا تو فرانس میں حجاب پر لگائی جانے والی پابندیوں اور ان کے بعد پیش آنے والے واقعات پر بھی ایسا ہی ردعمل سامنے آنا چاہیے تھا۔ اپنے دوہرے معیارات سے مغربی ممالک اور ادارے دنیا کو واضح طور پر یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ ایران میں تو فرد کی آزادی کے حق میں ہیں لیکن فرانس میں اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
دوہرے معیارات کا یہی معاملہ ریاست کے کسی خاص مذہبی عقیدے یا نظریے سے وابستہ ہونے سے متعلق بھی ہے۔ یورپ کے نام سے جانے جانے والے براعظم میں شامل ستائیس ممالک میں سے دس ملکوں کے جھنڈوں پر بنا صلیب کا نشان چیخ چیخ کر ان کی مذہبی وابستگی کا اعلان کررہا ہے لیکن اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ مغرب ریاست اور مذہب کی تفریق کا قائل ہے، ساتھ ہی مرقس اور متی کی اناجیل کا یہ اقتباس بھی پیش کردیا جاتا ہے کہ ’جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو، اور جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو۔‘ لیکن اقتباس کو پیش کرتے اور اس نظریے کے حق میں دلائل دیتے ہوئے یہ نہیں بتایا جاتا کہ برطانیہ میں بادشاہ چارلس سوم، جو اپنی والدہ ملکہ ایلزبتھ دوم کے آنجہانی ہونے کے بعد حال ہی میں تخت پر بیٹھے ہیں، ریاست کے سربراہ ہونے کے علاوہ کلیسائے انگلستان کے منتظمِ اعلیٰ یا سپریم گورنر اور ’محافظِ ایمان‘ (Defender of the Faith) بھی ہیں، اور امریکی صدر روایتی طور پر انجیل پر ہاتھ رکھ کر اپنے عہدے کا حلف لیتے ہیں اور اس روایت کو اتنی اہمیت حاصل ہے کہ 22 نومبر 1963 ء کو صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے بعد جب نائب صدر لِنڈن بی جانسن نے چھتیسویںامریکی صدر کے عہدے کا حلف لینا تھا تو وہ اس وقت ہوائی جہاز میں تھے۔ انجیل کی عدم دستیابی کے باعث جہاز میں موجود دعاؤں کی کتاب لائی گئی جس پر ہاتھ رکھ کر انھوں نے حلف لیا۔
خیر، بات ہورہی تھی ایران کی جہاں ہونے والی انسانی حقوق کی مبینہ پامالیوں کے بارے میں مغرب آج کل شدید تشویش کا شکار ہے۔ کئی مغربی نشریاتی اور صحافتی ادارے دنیا کو بتا رہے ہیں کہ 1979ء کے انقلاب سے پہلے تک ایران ایک آزاد خیال ملک تھا اور وہاں لوگوں کا رہن سہن ویسا ہی تھا جیسا یورپ اور امریکا میں ہے۔ ثبوت کے طور پر ایرانی عورتوں کی کچھ ایسی تصاویر بھی پیش کی جاتی ہیں جن میں ان کی کم لباسی اجاگر ہورہی ہو۔ ایسا کرتے ہوئے یہ بتانے سے قصداً گریز کیا جاتا ہے کہ ایران کو آزاد خیالی کا تحفہ مغرب نواز رضا شاہ پہلوی نے 8 جنوری 1936ء کو حجاب پر پابندی لگا کر دیا تھا۔ حجاب کے علاوہ عورتوں کے چادراور سکارف وغیرہ لینے اور مردوں کے روایتی لباس پہننے پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی ورنہ اس سے پہلے ایرانی عوام کا رہن سہن اس سے یکسر مختلف تھا جو اگلی تقریباً چار دہائیوں میں دکھائی دیا۔ 16 ستمبر 1941ء کو رضا شاہ کی اقتدار سے رخصتی کے بعد اس کا بڑا بیٹا محمد رضا شاہ پہلوی تخت پر بیٹھا۔ بیٹا مغرب نوازی میں اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چل رہا تھا، لہٰذا 11 فروری 1979ء کو اس کی شہنشاہت کے خاتمے تک ایرانی عوام آزاد خیالی کا عذاب سہتے رہے۔ تینتالیس سالہ دورِ جبر و استبداد کا سورج ڈوبتے ہی ایران پھر سے مذہب پسندی کی طرف واپس آگیا اور مغرب گزشتہ چار دہائیوں سے زائد عرصے سے اسی کوشش میں لگا ہوا ہے کہ کسی طرح رضا شاہ یا اس کے بیٹے جیسے کسی کٹھ پتلی کو دوبارہ اقتدار سونپ کر ایران کو اپنے رنگ میں رنگ لیا جائے!