وزیراعظم کا خطاب اور عالمی تنازعات
وزیراعظم محمد شہبازشریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب کے دوران ایک مدبر لیڈر کا کردار ادا کیا،انکی تقریرسے واضح ہوتا ہے کہ انکی نظریں ماضی کے اوراق پر بھی رہی ہیں اورمستقبل کی نقشہ گری پر بھی انکی گہری نظرہے۔ انہوںنے بڑی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا کہ دنیا آج اکیسویں صدی میں داخل ہوچکی ہے۔اس صدی کو شروع ہوئے ربع صدی کا عرصہ ہونے والا ہے ۔کیا ہی اچھا ہو کہ ہم پچھلی صدی کی سردجنگوں سے چھٹکارا حاصل کرلیں اورآج کے جدید چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی تیاری پکڑیں۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں ثابت کیا کہ وہ صرف ملک کا دکھڑا سنانے کیلئے جنرل اسمبلی میں نہیں آئے بلکہ وہ عالمی تنازعات کا منظروپس منظر بھی جانتے ہیں ،اور ان کا حل بھی تجویز کرسکتے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ یمن اور شام کے تنازعات کا حل پرامن طور پر تلاش کیا جائے۔ دونوں ملک بیرونی مداخلت کا شکار ہیں۔ شام پر تو عالمی طاقتیں کئی برسوں سے وحشیانہ بمباری کررہی ہیں۔ان کا مقصد صرف ایک ہے کہ صدر بشارالاسد کی حکومت کو ختم کیا جائے ۔ یمن میں بیرونی مداخلت کو سعودی عرب اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے ، اس لئے اس نے اپنے دفاع کیلئے علاقائی فورس منظم کرلی ہے۔ دوسری طرف، شام کو بیٹھے بٹھائے امریکہ نے اپنی عسکری یلغار کا نشانہ بنالیا ہے اور اسکی دیکھادیکھی نیٹوممالک کی ائرفورس شا م کو راکھ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ شام کے اندر باقاعدہ جہادی گروپس گھس آئے ہیں، جن کی عسکری و مالی امداد کی منظوری امریکی کانگریس کی طرف سے دی جاتی ہے ۔
ظاہرہے کہ کسی ملک پر بیرونی یلغار کو پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھاجاسکتا، اسی لئے وزیراعظم محمد شہبازشریف نے نہایت مختصر الفاظ اور بلیغ انداز میں یہ تجویز پیش کی کہ ان مسائل کو طاقت کے زور پر نہیں ، بلکہ پرامن طور پرحل کیا جانا چاہئے۔
اصل میں ،ایک سپرپاورطاقت کے زور پر نیو ورلڈ آرڈر مسلط کرنا چاہتی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ دنیا پر اسی کا حکم چلے اور کسی کو اس کے آگے چوں چاں کرنے کی ہمت نہ ہو۔ امریکہ نے پچھلے چند عشروں میں دنیائے عرب کو پامال کرڈالا ہے۔ اس نے افریقہ کو بھی نہیں بخشا، صومالیہ ،سوڈان،لیبیا، تیونس ، عراق،مصر ، لبنان اورشام تک اپنی مداخلت کا دائرہ پھیلادیا۔ لیبیا میں حکومت کی تبدیلی کیلئے نیٹوممالک کے جنگی طیاروں نے رعونت اور فرعونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مردِ آہن کرنل قذافی کو ایک میزائل کے ذریعے قیمہ بنا ڈالا۔عراق میں تو امریکہ نے خونی ڈرامہ کھیلا،اس فوج کشی پر امریکی عوام نے بھی اپنی مخالفت کا مظاہرہ کیا۔ یورپ کے لوگ بھی کروڑوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکلے،مگر امریکہ نے کسی کی ایک نہ سنی، اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔اسے تب تک چین نہ آیا ،جب تک اس نے عراقی صدر صدام حسین کو پھانسی پر نہ لٹکادیا۔ دیگر عرب ملکوں میں امریکہ نے پس پردہ رہ کر مداخلت کی اور اسے عرب بہار کی تحریک کا نام دیا۔ عرب بہار کی تحریک کے جوش میں مصری عوام نے اپنے صدر حسنی مبارک کو معزول کرکے ایک پنجرے میں بند کردیا ۔ مصری عوام نے حسنی مبارک کی جگہ اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے صدر ڈاکٹر مرسی کا انتخاب کیا ،مگر امریکہ کو اخوان المسلمین کا اقتدار راس نہ آیا اور یوں مصری فوج نے صدرڈاکٹر مرسی کا تختہ الٹ کر مارشل لاء نافذ کردیا۔
دراصل نیوورلڈ آرڈرنوآبادیاتی نظام کی ایک نئی شکل کا نام ہے۔ایک زمانہ تھاکہ برطانیہ ، فرانس، ہالینڈ، پرتگال اور سپین نے دنیا پر اپنا اپنا نوآبادیاتی نظام رائج کیا۔ اس جبر کیخلاف دنیاکے مظلوم وغلام ممالک اٹھ کھڑے ہوئے اور نوآبادیاتی نظام کی زنجیریں ٹوٹتی چلی گئیں۔ اسکے بعد دنیا میں دو عالمی طاقتوں کی باہمی کشمکش شروع ہوگئی، ایک طرف سوویت یونین،دوسری طرف امریکہ۔سوویت یونین افغانستان میں پھنس کر پامال ہوگیا اوراب دنیائے حاضر میں ’یونائیٹڈاسٹیٹس آف امریکہ‘ کا طوطی بولتا ہے ۔ بیسویں صدی کا انجام اس طرح ہوا کہ دنیا میں ہرسوامریکی نقارہ بج رہاتھا۔ امریکی جبر کے اس رویئے کے الائو میں اکیسویں صدی نے آنکھ کھولی۔ پچھلے دو عشروں میں دہشت گردی کے الفاظ سن سن کر دنیا کے لوگوں کے کان پک گئے ہیں ۔ آج تیسری دنیا کے عوام بھوک ،جہالت ،افلاس، بیماریوںکا شکار ہیں ۔ تاہم سوشل میڈیا نے تمام جغرافیائی حدودگرادی ہیں۔ لوگ اپنے حقوق پر کسی کو ڈاکہ ڈالنے کی اجازت دینے کے موڈ میں نہیں نظر آرہے۔یہی وہ تبدیلی ہے جس کی طرف وزیراعظم شہبازشریف نے اپنے خطاب میں اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بیسویں صدی کے ورثے کو بھول کر اکیسویں صدی کے جدید تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ ہمیں پرانی الجھنوں سے چھٹکارا پانا چاہئے۔ نت نئے مسائل کو سلجھانے کیلئے تمام کوششیں صرف کردینی چاہئیں۔
وزیراعظم شہبازشریف نے فلسطین کے قضیئے کا بھی ذکر کیااور اسکے پرامن حل کیلئے زور دیا۔ انہوں نے مطالبہ کیاکہ 1967ء کی سرحدوں کے مطابق فلسطین کی آزاد ریاست قائم کی جائے ۔ جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو۔ وزیراعظم شہباز شریف نے عالمی معاملات پر جس طرح تبصرہ کیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ غلامانہ ذہنیت سے چھٹکارا چاہتے ہیں اور دنیا میں بہرصورت آزادی کی لہر بارآور ہوتی دیکھنا چاہتے ہیں ۔
اسلامو فوبیا کا مرض دنیا کو نیا نیا لاحق ہوا ہے ۔ کبھی نعوذ بااللہ قرآن پاک کو جلانے کی جسارت کی جاتی ہے، کبھی رسول مقبول ﷺ کے توہین آمیزخاکے نعوذبااللہ شائع کئے جاتے ہیں۔ کبھی مسلم اقلیتوں پرمظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ حجاب کیخلاف ایک نفرت پھیلائی جارہی ہے ۔ بھارت میں تیس کروڑ مسلمانوں کو اذیت دینے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے ۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں اسلاموفوبیا کے اس مذموم رحجان کی بھرپور مذمت کی اور مسلمانوں کے مقدس شعائر کا احترام کرنے کا پرزور مطالبہ کیا ۔انہوں نے عالمی رہنمائوں کو یاد دلا یا کہ اقوام متحدہ متفقہ طور پر 15مارچ کا دن اسلاموفوبیا کیخلاف منانے کی قرارداد منظور کرچکا ہے ۔ وزیراعظم کا یہ مدلل ،فکر انگیزخطاب پاکستان کے ملکی مسائل سے لے کر عالمی معاملات تک پر محیط ہے ۔ یہ خطاب دراصل ایک مدبر لیڈر کے شایان ِ شان ہے ۔