پاکستان میں مجوزہ انتخابات کے ممکنہ نتائج
انتخابات تقریباً ایک سائنس کا درجہ اختیار کرچکے ہیں۔ مغربی ممالک، خصوصاً امریکہ میں انتخابات کے بارے پیشگی نتائج مرتب کرنے والے افراد، ادارے، اور تنظیمیں اتنی متحرک ہیں کہ انتخابات سے کئی ہفتوں پہلے انتخابی نتائج کا سائنسی بنیادوں پر درست جائزہ پیش کردیتی ہیں۔انتخابی نتائج کی پیش گوئیوں سے متعلق علوم کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں کون سی سیاسی جماعت یا اتحاد کامیاب ہوسکتا ہے۔ یہ بات تو مسلمہ حقیقت ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک سے چند روز پہلے تک عمران خان اور ان کی حکومت شدید دباؤ کا شکار تھی، عمران خان اپنی سیاسی مقبولیت کے کم ترین لیول پر تھے، ان کی پارٹی کے لوگ ایک ایک کرکے انہیں چھوڑ رہے تھے، خصوصاً مرکز اور صوبہ پنجاب میں مضبوط اور طاقتور سیاسی لوگ انہیں چھوڑ چکے تھے، اسی لیے انہیں مرکز اور صوبہ پنجاب میں اپنی حکومت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ عمران خان کی سیاسی کایا اس وقت پلٹی جب ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوگئی اور وہ اقتدار سے محروم ہوگئے۔ حکومتی ایوانوں سے تو دھڑام سے گر کر وہ فرش پر آگئے مگر امریکی سازشی بیانیے یعنی ’ہم کوئی غلام ہیں‘ اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ نے عمران خان کو فرش سے اٹھا کر مقبولیت کے عرش پر پہنچا دیا۔
اس سے پہلے کہ آئندہ انتخابات کے متوقع نتائج پر بات کریں، عمران خان کی حالیہ بے پناہ مقبولیت کا راز جاننا بہت ضروری ہے کیونکہ اس راز یا وجہ کا آئندہ ہونے والے انتخابات کے نتائج سے گہرا تعلق ہے۔ اس بات کا جائزہ لینے کے لیے ہم ایک تاریخی تشبیہ کے معروف نظریہ کو بروئے کار لاتے ہیں جس کے تحت حال میں کسی مسئلہ کے حل کے لیے ماضی میں اسی طرح کے مسئلہ سے درپیش تاریخی حقائق کے ذریعہ موجودہ مسئلہ کی وجہ اور حل تلاش کیا جاتا ہے۔ عمران خان کی بے پناہ مقبولیت کی وجہ ان کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ ہے، ملکی اور غیر ملکی مقتدر حلقوں کو جرأت اور بہادری سے چیلنج کرنا انھیں عوام میں مقبول بنا گیا۔ اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا، محترمہ فاطمہ جناح، شیخ مجیب الرحمن، ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو ، اور اپنے دوسرے اور تیسرے دور حکومت میں میاں نواز شریف کو بھی عوامی مقبولیت اور پذیرائی اس بنا پر ہی ملی تھی کہ انھوں نے اعلیٰ مقتدر حلقوں کو للکارا تھا۔ بعینہٖ یہ ہی کچھ عمران خان کے ساتھ ہوا ہے، ایک مقبول قومی عوامی لیڈر بننے میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ یا نعرہ نے ان کی مدد کی ہے اور ان کی مقبولیت کو چار جاند لگادیے ہیں۔ ماضی کے مقبول لیڈرز اور عمران خان کی مقبولیت میں جدید سوشل میڈیا کے بھرپور استعمال کے علاوہ دو فیکٹرز ایسے ہیں جو سوشل میڈیا کی طرح بالکل نئے ہیں، جنھوں نے عمران خان کو ان کے بقول انتہائی خطرناک بنادیا ہے۔ ایک فیکٹر نوجوان ہیں، عمران خان کی حمایت میں نوجوانوں کا سب سے اہم کردار ہے۔
عمران خان کی حالیہ مقبولیت میں دوسرا فیکٹر دلچسپ ہے مگر حیران کن نہیں۔ تحریک انصاف کا جارح اور چارجڈ ورکر تو سخت نالاں ہے ہی کہ اعلیٰ مقتدر حلقوں نے سازش کے ذریعہ عمران خان کو اقتدار سے کیوں ہٹایا ؟ مگر اب لگتا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے ایسے ووٹرز جو اسٹیبلشمنٹ مخالف نظریات رکھتے تھے، وہ عمران خان سے سیاسی اور نظریاتی اختلافات کے باوجود، عمران خان کے ساتھ آن کھڑے ہوئے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی اور کراچی میں ایم کیو ایم کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ ووٹر تو سمجھ میں آتا ہے کہ عمران خان کا ساتھ دیتا رہا ہے مگر پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی لینڈ سلائیڈ کامیابی سے ایسا لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا وہ ووٹر جو میاں نوازشریف کے اس بیانیہ کہ ’مجھے کیوں نکالا‘ اور ’ووٹ کو عزت دو‘ کے ساتھ کھڑا تھا، اور اب چونکہ مسلم لیگ (ن) خود اس بیانیہ کے ساتھ نہیں کھڑی بلکہ شہباز شریف کی قیادت میں پوری طرح سے پرو اسٹیبلشمنٹ جماعت بن چکی ہے، وہ ووٹر بھی مسلم لیگ (ن) سے علیحدہ ہوگیا ہے، ماضی میں پیپلز پارٹی کا پنجاب کا ووٹر اپنی وفاداری بدل کر نواز شریف کی مسلم لیگ کے حق میں ہوچکا ہے۔ اور اب اس کی حمایت عمران خان کے پلڑے میں ہے۔ نئے انتخابات تین ماہ بعد ہوں یا پھر چھ ماہ بعد، عمران خان کی کامیابی کے امکانات کئی گنا زیادہ ہوگئے ہیں۔ یہ دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے سخت تشویش کی بات ہے، اسی لیے وہ انتخابات کو ہر صورت ٹالنا چاہتی ہیں۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور مقتدر حلقوں کے پاس عمران خان کا کیا توڑ ہے؟
عمران خان کی قانونی اور آئینی آپشن استعمال کرتے ہوئے سیاست سے نااہلی بھی اب عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت تحریک انصاف کو انتخابات کے ذریعہ اقتدار میں آنے سے نہیں روک سکتی۔ عمران خان کی جان لینے کی کوئی کوشش یا عمران خان کی گرفتاری انھیں عوام میں اور مقبول بنادے گی۔ حکومت کے پاس آئینی اور قانونی آپشنز میں من پسند آرمی چیف کی تقرری، سپریم کورٹ میں ججز کی پانچ خالی پوسٹوں پر اپنے ہم خیال ججوں کی نامزدگی، پنجاب حکومت میں تبدیلی، نواز شریف کی وطن واپسی، اور پی ڈی ایم کو ایک انتخابی اتحاد میں بدلنے کے مواقع موجود ہیں۔ اس کے علاوہ وفاقی حکومت سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی، اور بیرون ملک سے ملنے والی امداد کو عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے استعمال میں لاکر آئندہ مالی بجٹ میں زیادہ سے زیادہ ریلیف دے کر اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو تھوڑا سنبھالا دے سکتی ہے۔ دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے بھی حکومت پاکستان کو کثیر مالی مدد مل سکتی ہے۔ مہنگائی، پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کرکے، موجودہ حکومتی اتحاد کسی حد تک عمران خان کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں آسکتا ہے۔
مگر یاد رہے کہ عمران خان کو مقابلہ سے باہر صرف خود عمران خان ہی کر سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سانپ کے کاٹے کا علاج بھی سانپ کے زہر میں ہوتا ہے۔ جس بیانیہ نے عمران خان کو مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچایا ہے،اس بیانیہ کا تریاق، اس بیانیہ سے یو ٹرن میں ہے۔ عمران خان یو ٹرن لینے کا صرف ماہر نہیں بلکہ موجد ہے۔ مگر یہاں شاید اس سے غلطی ہوجائے، عمران خان ہر بات پر یوٹرن لے سکتا ہے، مگر اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ پر یو ٹرن نہیں لے سکتا، جج صاحبہ سے معافی نے عمران خان کی سیاسی پوزیشن کو کمزور کیا ہے، اعلیٰ مقتدر حلقوں سے خفیہ یا علانیہ بات چیت عمران خان کو مزید کمزور کردے گی۔ عمران خان اس حقیقت کو سمجھ رہا ہے کہ اعلیٰ مقتدر حلقوں کی حمایت کے بغیر وہ دوبارہ اقتدار میں نہیں آسکتا مگر اس وقت سخت شش و پنج میں مبتلا ہے کہ کس طرح اس تاثر کو بھی قائم رکھے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لے سکتا ہے، اور پس پردہ ان کی حمایت کے لیے بھی کوشاں رہے۔ مقتدر حلقے بھی اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں ، اسی لیے ایوان صدر میں ہونے والی ایک خفیہ ملاقات کا احوال من وعن ایک صحافی کے ذریعہ طشت از بام کردیا۔
اس صورت میں حکومت کے پاس ایک آپشن باقی ہے کہ کسی حد تک معاشی بحالی کے عمل کے بعد اس انداز سے حکومت چھوڑے کہ عوام میں یہ تاثر جائے کہ اسے کام نہیں کرنے دیا گیا، اسٹیبلشمنٹ نے اس کے راستے میں روڑے اٹکائے، وہ ملک کو معاشی ترقی کی طرف لے کر جا رہے تھے مگر انھیں کام نہیں کرنے دیا گیا، اس لیے اپنی مدت سے پہلے (خواہ چند ماہ پہلے سہی) وہ ایسی حکومت کو لات مارکر، ایک بار پھر سیاسی شہید بن کر عوام کے سامنے آجائیں، اور عمران خان کے اکیلے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ میں حصہ دار بن جائیں، خواہ اس مقصد کے لیے نورا کشتی ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ اس کا آغاز حالیہ ’وزیراعظم ہاؤس لیکس‘ سے ہوگیا ہے۔ یہ وہ واحد حل ہے جس کے ذریعہ حکومتی اتحاد عمران خان کے سحر کو توڑ سکتا ہے۔ باقی کا کام آسان عمران خان خود کردے گا۔