ٹرانس جینڈر ایکٹ پر نظریاتی کونسل کی سفارشات
وفاقی حکومت کی طرف سے ٹرانس جینڈر ایکٹ کی منظوری کے بعد سے ملک کے مذہبی، سیاسی اور سماجی حلقوں کی طرف سے مخالفانہ بیانات اور اعتراضات کا ایک سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ منظور کیے جانے والے قانون کو خلاف اسلام و شریعت قرار دیا جا رہا ہے اور اسے واپس لینے یا ترامیم کے ساتھ دوبارہ پیش کئے جانے کے مطالبات زور پکڑ گئے ہیں جبکہ اسلامی نظریہ کونسل نے بھی ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018ء کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس ایکٹ میں شامل بعض دفعات شرعی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں، اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نے حقیقی مخنث کے حقوق کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ نئے نئے سماجی مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ حکومت ٹرانس جینڈر افراد سے متعلق ایکٹ کے جائزے کے لیے کمیٹی بنائے۔ کمیٹی اسلامی نظریاتی کونسل، علماء ، ماہرین قانون اور ماہرین طب پر مشتمل ہو۔ کمیٹی خواجہ سرائوں کے بارے میں قانون کا تفصیلی جائزہ لے۔ ۔
بہتر تو یہی تھا کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ ایوان میں پیش کیے جانے سے پہلے اس پر اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے بھی حاصل کر لی جاتی اور اس کی روشنی میں اس حوالے سے پیش رفت کی جاتی تو مذہبی اور عوامی حلقوں کی طرف سے اس قدر اعتراضات نہ آتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور عجلت میں ہی اسے دونوں ایوانوں سے منظور کروا لیا گیا جس کی وجہ سے ایکٹ متنازعہ بن گیا ۔ اب اسلامی نظریاتی کونسل نے مذکورہ ایکٹ کو خلاف شرع قرار دینے کے بعد ریویو کے لیے کمیٹی قائم کرنے کی تجویز پیش کی ہے جو درست اور صائب ہے کیونکہ اس ایکٹ نے موجودہ حکومت کے بارے عوام الناس کے دلوں میں جو شکوک و شبہات پیدا کئے ہیں ان کا ازالہ ہو سکے گا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے یقینی طور پر ا س قانون کا تمام پہلوئوں سے جائزہ لینے کے بعد ہی اسے غیر شرعی قرار دیا ہے۔ اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے ایک کمیٹی تشکیل دے جس میں نظریاتی کونسل سمیت تمام مکاتبِ فکر کے نمائندہ علماء ماہرین نفسیات و ماہرین طب کو شامل کیا جائے اور پھر ان سب کی متفقہ رائے سے جو رپورٹ مرتب کی جائے اسی کے مطابق عمل کیا جائے۔