جمعرات، 2ربیع الاول 1444ھ، 29 ستمبر 2022ء
اسحاق ڈار کو نظام انصاف نے روکا نہ محافظوں نے۔ میں روکوں گا۔ عمران خان
اب ان کی اس دھمکی کے بعد ڈر ہے کہیں ڈار صاحب سہم کر کسی گوشے میں گوشہ نشین نہ ہوں جائیں۔ ویسے بھی خان صاحب کو چسکا پڑ چکا ہے کہ وہ آئے روز کسی نہ کسی سے سینگ پھنساتے پنجہ لڑاتے رہتے ہیں۔ اب انہیں اسحاق ڈار کی شکل میں ایک نیا مشغلہ ہاتھ آیا۔ وہ اب دیر تک اس کھلونے سے دل بہلاتے رہیں گے۔ عوام کو جلسے جلوسوں میں ہنساتے رہیں گے۔ جب تک کوئی نیا مشغلہ ہاتھ نہیں آتا اسی سے سب کا دل بہلاتے رہیں گے۔ کبھی سازش کبھی خط،کبھی لانگ مارچ ، کبھی دھرنا، کبھی عدالت، کبھی الیکشن کمشن ، کبھی میر جعفر کبھی میر صادق کبھی نیوٹرلز اور اب اسحاق ڈار امید ہے خان صاحب پروڈکشن کی طرف سے یہ ڈرامہ بھی خاصہ کامیاب رہے گا۔ کیونکہ ان کے پیروکار ان کی ہر بات پر آنکھیں بند کر کے یقین کرتے ہیں۔ حیرت ہے اگر عدالت انہیں صادق امین قرار دے تو فوری طور پر یقین کر لیتے ہیں۔ اگر عدالت کی طرف سے ان پر کوئی الزام ثابت ہو تو وہ اسے ماننے سے انکار کرکے طوفان برپا کر دیتے ہیں اور اسے خان صاحب کے خلاف سازش قرار دے کر اپنے دل و دماغ کو مطمئن کرتے ہیں۔ دوسری طرف ڈار صاحب کی آمد کے بعد تو سچ مچ ڈالر کی پرواز تھم گئی ہے۔ اس کی سپیڈ کو بریک لگ رہی ہے اور وہ تیزی سے نیچے آنا شروع ہو گیا ہے۔ اگر یہ سب کچھ حقیقت میں ہو رہا اور اس کا ہمارے معاشی حالات پر اچھا اثرپڑ رہا ہے تو پھر اسحاق ڈار کی آمد کسی کو اچھی لگے یا بری باعث مسرت ہی ہے۔ وہ بھی فخر سے بتا رہے ہیں میرے آنے اور وزیر خزانہ بننے سے دو دن میں ڈالر 9 روپے تک گر چکا ہے جس سے ہمارے قرضوں کی مالیت میں 1350‘ ارب روپے سے زیادہ کی کمی ہوئی ہے۔ اگر اسحاق ڈار واقعی ڈالر کو 150 روپے پر لے آتے ہیں تو پھر عمران خان نے جو کچھ کرنا ہے کر لے ان کا یہ شو بھی فلاپ ہو سکتا ہے۔ اب نئے وزیر خزانہ اس کے ساتھ ساتھ مہنگائی پر بھی ہاتھ ڈالیں اسے لگام دیں تو پھر ستے خیراں ہونگی۔ ورنہ یہ فلم بھی فلاپ ہو گی۔
٭٭٭٭٭
’’پارسل لے لیں‘‘ دروازہ کھلتے ہی ڈاکو گھر میں گھس گئے
اول تو یہ بات سب کو دماغ میں بٹھانا ہو گی کہ وہ نوسربازوں کیخلاف اپنے گھر والوں کو گاہے بہ گاہے خبردار کرتے رہیں۔ کسی اجنبی کو خواہ بزرگ ہو بچہ ہو یا عورت گھر میں ہرگز کسی صورت داخل نہ ہونے دیں۔ مدد کرنی ہے تو بند دروازے سے باہر ہی سے اس کی مدد کر کے رخصت کریں۔ کسی رقم ڈبل کرنے والے یا مانگنے والے بابے یا مائی پر اعتبار نہ کریں یہ سب فراڈی ہوتے ہیں۔ ایسے واقعات آئے روز رونما ہوتے ہیں۔ مگر کیا مجال ہے کہ یہ ضعیف الاعتقاد، توہم پرست لوگ کسی مشورے پر کان دھریں۔ یہ فراڈی اپنی لچھے دار باتوں سے کوئی نہ کوئی مرغا آئے روز پھنسا ہی لیتے ہیں۔ اب یہ نئی افتاد بھی ٹوٹ پڑی ہے۔ کورئیر سسٹم یا باہر سے کھانے پینے کی اشیاء ہوں یا دیگر استعمال کی آئٹمز بذریعہ پارسل منگوانے کے لیے لوگ فون پر آرڈر بک کراتے ہیں۔ اس لیے پارسل وصول کرنے کے لیے بے دھڑک گھر کا گیٹ یا دروازہ کھول دیتے ہیں۔ یہ بھی ایک خطرناک بات ہے۔ اس طرح کئی وارداتیں ہو چکی ہیں۔ سامان پہنچانے کے نام پر ڈاکو گھر والوں کو لوٹ لیتے ہیں۔ اب گزشتہ روز لاہور میں جس طرح ڈاکوئوں نے پارسل وصول کرنے کا کہہ کر گیٹ کھلوایا اور ا ندر گھس کر گھر لوٹا اس کے بعد تو عوام کو محتاط ہو جانا چاہیے۔ اس لیے دروازے کھولتے ہوئے اِدھر اُدھر جھانک کر تسلی کرنا بہتر ہے۔ ورنہ واردات آپ کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭
کابینہ کیخلاف شیخ رشید کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ برہم
اب بندہ جب ویہلا ہو تو کیا کرے۔ یہی معاملہ آج کل شیخ رشید کا ہے وہ اب سیاسی لبادے کے بخیئے نہ ادھیڑیں تو کیا کریں۔ کہتے ہیں بھرا پیٹ شیطان کا گھر اور خالی پیٹ شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے۔ شیخ جی میں یہ دونوں خوبیاں موجود ہیں ان کا پیٹ بیک وقت بھرا بھی رہتا ہے اور خالی بھی ۔ اس لیے وہ نت نئی سازشی چالیں سوچتے ہیں۔ اب انہیں بیٹھے بٹھائے یہ سوجھی کہ موجود حکومت کی کابینہ بہت بڑی ہے۔ اس کیخلاف کوئی عدالتی کارروائی کی جائے۔ کچھ ہو نہ ہو ایک کھیل ہی سہی۔ مگر وہ یہ بھول گئے کہ ان کے اتحادی دور حکومت میں کابینہ کا حجم کیا تھا۔ کتنے وزیر اور مشیر تھے۔ یہی بات ان کے لیے مسئلہ بن گئی۔ عدالت میں انہوں نے درخواست دی تو پہلی سماعت پر ہی عدالت نے ان کی سرزنش کرتے ہوئے انہیں یاد دلایا کہ وہ خود بھی پارلیمنٹ کے ممبر رہے ہیں اس کے باوجود اسی پارلیمنٹ کو بے توقیر کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ جی ہاں وہی پارلیمنٹ جس کا ممبر بننے کے لیے دن رات یہ لوگ ووٹروں کے پائوں پڑتے ہیں۔ اب اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس نے شیخ جی کی اچھی کلاس لی اور انہیں خبردار کیا کہ آئندہ ایسی سیاسی پٹیشن عدالت میں لائی توبھاری جرمانہ ہو گا۔ سیاست کرنی ہے تو یہ مسائل پارلیمینٹ میں اٹھائیں، عدالتوں کو سیاست میں نہ گھسیٹیں۔ اب شیخ جی نے پینترا بدلا اور درخواست واپس لینے کی درخواست کر دی ہے۔ مگر جو عدالت نے کہنا تھا وہ کہہ چکی جس سے امید ہے شیخ جی کی پوری نہ سہی کچھ تو تسلی ہو گئی ہو گی۔ لوگوں نے عدالتوں کو نجانے کیا سمجھ لیا ہے جس کا جی چاہتا وہاں درخواست دائر کر دیتا ہے۔ یوں عدالتوں کا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے۔ بہتر ہے کہ پارلیمانی معاملات پارلیمینٹ میں اٹھائے جائیں۔ مگر کیا کریں۔ شیخ جی نے بھی عمران خان کے کہنے پر استعفی دیا ہوا ہے۔ عدالتی ریمارکس پر بھی وہ اب پارلیمینٹ میں کیسے جائیں خان صاحب کے حکم کے خلاف وہ بھلا کیسے چل سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کرکٹ میچ اور ٹریفک کی بندش
کرکٹ میچوں کا انعقاد بڑی خوشی کی بات ہے۔ مگر اس کے بہانے دور دور تک سڑکوں کو بیرئر لگا کر بند کرنا۔ حفاظت کے نام پر عوام کو سڑکوں پر گھنٹوں خوار کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ چند ہزار شائقین کی خوشی کے لیے لاکھوں افراد کو سڑکوں پر اذیت میں مبتلا کرنا بھی تو غلط ہے۔ حفاظتی پلان بنائیں۔ غیر ملکی کھلاڑیوں کو تحفظ دیں۔ کھیلوں کے میدانوں کو آباد رکھیں۔ مگر خدارا عوام پر تو رحم کریں ان پر سڑکیں بند کر کے ظلم نہ ڈھائیں۔ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ٹی ٹونٹی سیریز کے باقی میچ اب لاہور میں ہوں گے۔ قذافی سٹیڈیم ایسی جگہ واقعہ ہے جہاں پہلے جب وہ بنا تھا تو اتنی آبادیاں نہ تھی۔ اب یہ علاقہ ایک تجارتی و کاروباری مرکز بن چکا ہے۔ جہاں سڑکوں پر ٹریفک کا اژدھام رہتا ہے۔ خاص طور پر فیروز پور روڈ کی کلمہ چوک تا وحدت روڈ چوک تک بندش سے بلامبالغہ ہزاروں گاڑیاں موٹر سائیکل ، رکشے بند ہونے سے منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ متبادل راستوں پر بھی ٹریفک پھنسی ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی بیمار ایمبولینس میں ہے تو اس کا خدا ہی حافظ ہوتا ہے۔ صرف قذافی سٹیڈیم کے باہر بے شک ٹینک اور توپیں نصب کریں مگر سڑکوں کو بند نہ کریں۔ لوگ پہلے ہی مختلف مسائل کی وجہ سے ذہنی مریض بن چکے ہیں ان پر رحم کھایا جائے۔