• news

روٹی کے لالے 

چند دن پہلے میں ہمارے محلے کے تندور پر روٹیاں لینے گیا۔ جب وہاں پہنچا تو میں نے دیکھا وہاں بہت کم لوگ روٹیاں لینے آئے تھے۔ میں نے جب اپنا موبائل نکال کر اس پر وقت دیکھا تو دوپہر کے ڈیڑھ بج رہے تھے۔ میں کافی حیران ہوا کیونکہ عموماً پاکستان میں دوپہر کا کھانا ڈیڑھ سے دو بجے کے درمیان ہی کھایا جاتا ہے۔ میری باری آخری تھی تو میں نے سوچا کہ میں ان سے سوال ضرور کروں گا کہ آج تندور پر اتنا کم رش کیوں ہے۔ جب باری آئی تو اس وقت کوئی اور گاہَک موجود نہیں تھا اسی لیے میں نے بڑے آرام ان سے سوال کر لیا۔ جواب میں انہوں نے مجھے بتایا کہ پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً تیس فیصد گاہک کم ہوگئے ہیں جس سے ان کے کاروبار کو بھی بہت نقصان ہوا ہے۔ محلے میں کوئی اور تندور نہیں ہے اور پھر بھی تیس فیصد کی کمی ہونا بہت خوفناک بات تھی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ انہی دنوں پچھلے سال ایک سادی روٹی آٹھ روپے کی تھی جبکہ ایک نان پندرہ روپے کا ہوا کرتا تھا اور اب روٹی دس روپے کی ہے جبکہ نان بیس روپے کا ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا تھا انہیں تندور چلاتے ہوئے پچیس سال ہوگئے ہیں لیکن آٹے کے نرخوں میں اتنا زیادہ اضافہ کبھی نہیں دیکھا اور نہ ہی کبھی ایسے خراب کاروباری حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک نئی چیز جو سننے کو ملی وہ یہ تھی کہ شادیوں میں نان کے آرڈر اور دوسرا جو لوگ نان حلیم یا نان حلوا بانٹا کرتے تھا وہ اب بہت زیادہ کم ہوگئے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کے اخراجات کی کیا صورتحال ہے تو انہوں نے بتایا پچھلے سال گرمیوں میں میرا بجلی کا بل تین ہزار یا حد چار ہزار آتا تھا لیکن اب پچھلے مہینے مجھے بارہ ہزار روپے کا بل آیا ہے۔ ایل پی جی آج کل پچیس سے تیس ہزار کی استعمال ہو رہی ہے لیکن سردیوں میں حالات اور بدتر ہو جائیں۔
پاکستان میں اصل حکومت مافیاز کی ہے۔ آپ جو کام بھی دیکھ لیں اسکے پیچھے مافیا ضرور ہوگا چاہے وہ گاڑیوں کا ہو، چینی کا ہو، پھلوں کا یا آٹے کا۔ آٹے کے کام میں مل مالکان سے لے کر سپلائرز سب ملے ہوتے ہیں۔ جیسے ہی مارکیٹ میں قلت پیدا کرنی ہو فوراً ذخیرہ اندوزی کر لیتے ہیں پھر دو ہی راستے بچتے ہیں یا تو آپ اپنے کاروبار کو بند ہوتا دیکھیں اور اپنا بھاری نقصان کر وائیں یا آپ انکے منہ مانگے ریٹس یعنی بلیک میں خرید لیں۔ نقصان اس کو دونوں صورتوں میں ہے لیکن کوئی بھی سمجھدار شخص اپنے کاروبار کو بند ہونے سے بچائے گا اور مجبوراً اسے یہ آٹا بلیک میں خریدنا پڑے گا۔ جیسے ابھی پچھلے دنوں کوئٹہ میں آٹے کا بحران کیا گیا تھا اور تندوروں پر ایک روٹی 50 روپے تک میں فروخت ہوئی۔سندھ حکومت نے بھی آٹا 65 روپے کلو فروخت کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن آٹا  110 سے 120 روپے کلو میں فروخت کیا جا رہا ہے۔
لاہور میں فلور ملز نے سرکاری سستے آٹے کا 20کلو والا تھیلا 330 روپے مہنگا کردیا ہے یعنی سبسڈائز 20 کلو آٹے کا تھیلا 980 روپے سے بڑھا کر اب 1310روپے کا کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سرکاری گندم کی قیمت پہلے 1765 روپے تھی جسے بڑھا کر 2300 روپے فی من کر دی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سرکاری گندم کی قیمت بڑھنے پر انہوں نے آٹے کی نئی قیمت مقررکی ہے جس کا ابھی اعلان ہونا باقی ہے۔ یہ بالکل سر پر لٹکی تلوار کے مترادف ہے دونوں تندور والوں اور عوام کے لیے۔ تندور والوں کے لیے کچھ یوں کہ اگر فائن آٹے اور میدے کی قیمت کم نہ ہوئی تو روٹی 20 روپے اور نان 30 روپے کا کرنا پڑے گا۔ نانبائی ایسوسی ایشن کے صدر آفتا ب گل کا کہنا ہے کہ فائن آٹے کی بوری 7400 سے بڑھ کر 9ہزار روپے کی ہوگئی ہے، حکومت ایک ہفتے میں ریلیف فراہم کرے ورنہ روٹی اور نان مہنگا کردیا جائے گا۔ 
وزیر اعظم شہباز شریف اور ولادی میر پیوٹن نے گزشتہ ہفتے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر ازبکستان میں اہم ملاقاتیں کیں۔ جن میں روس سے پاکستان کو تیل، گیس اور گندم کی فراہمی سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا اور خوشخبری بھی ملی کہ روس نے پاکستان کو موخر ادائیگیوں پر پٹرول فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ پوری دنیا میں آٹے کی سب سے زیادہ برآمدات روس کرتا ہے جو کہ تقریباً بین الاقوامی برآمدات کا 18 فیصد بنتا ہے۔ آج کل سیلاب کی وجہ سے بھی ورنہ ہمیں ویسے بھی آٹا درآمد کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ مافیا کو کمزور کر دیں گے۔ جب مافیا کمزور ہوگا حالات کچھ حد تک بہتری کی جانب گامزن ہو جائیں گے۔ اس کے ساتھ حکومت کو چاہیے وہ دکان داروں پر کڑی نظر رکھے اور ایسی ہیرا پھیری کرنے والے کے خلاف فوری طور پر ایکشن لے جو سامان ضرورت سے زیادہ مہنگا کر کے بیچتے ہوں ۔ حکومت کو چاہئیے کہ ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن شروع کرے۔ ایسے حالات میں منافع کمانے والوں کو لوٹ مار کا کھلا موقع دینے کی بجائے لوگوں کو ریلیف دینے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئیے۔

ای پیپر-دی نیشن