وزیراعظم کا جنرل اسمبلی سے خطاب
وزیراعظم محمد شہبازشریف نے 23 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں سالانہ اجلاس سے خطاب کیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اقوام عالم کا سب سے بڑا فورم ہے اور دنیا کا ہر ملک اس کا رکن ہے۔ جنرل اسمبلی کا سالانہ ہر سال ستمبر کے مہینے میں ہوتا ہے جس میں رکن ممالک کے سربراہان یا اُنکے نمائندے شرکت کرتے ہیں۔ گذشت تین سال کے دوران کروناکی وبا کی وجہ سے جنرل اسمبلی کے اجلاس کیمرہ کے ذریعے منعقد کیے گئے جن سے مختلف سربراہان نے خطاب بھی ویڈیو لنک کے ذریعے ہی کیا اس وجہ سے اس سال کا اجلاس اس لئے بھی اہمیت کا حامل تھا کہ یہ تین سال کے بعد اپنی اصلی حالت میں ہو رہا ہے۔ آج دنیا کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے اور ہر ملک کا ان کے بارے میں اپنا نقطہ نظر ہے۔ روس اور یوکرائن کی جنگ نے بھی حالات کو یکسر بدل دیا ہے اور اس کے اثرات اب دنیا محسوس کر رہی ہے۔ اسی طرح موسمی تبدیلی نے بھی دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور اب اسے ایک حقیقی مسئلے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود کشمیر اور فلسطین جیسے دہائیوں پرانے تنازعے بھی ابھی تک حل طلب ہیں۔ ان تمام حالات میں اور بالخصوص پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی بدولت رونما ہونیوالے انسانی المیے کے تناظر میں وزیراعظم پاکستان کا جنرل اسمبلی کے اس اہم سالانہ اجلاس سے خطاب بہت اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا تھا اور ہر کوئی اس خطاب کا منتظر تھا۔ اپنے 28 منٹ کے خطاب میں وزیراعظم نے پاکستان اور دنیا کو درپیش مسائل اورخطرات کا بھرپور انداز میں احاطہ کیا۔ انکے خطاب کا سب سے بنیادی اور مرکزی نقطہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پاکستان میں آنیوالے تباہ کن سیلاب کے بارے میں تھا۔ وزیراعظم نے اس سلسلہ میں پاکستان کا مقدمہ دنیا کے سامنے بھرپور اور موثر انداز میں پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ گرین ہائوس گیسز کے اخراج میں پاکستان کا حصہ 10% سے بھی کم ہے مگر انکا نشانہ آج ہم بن رہے ہیں۔ ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے اسکی وجوہات میں ہمارا کوئی کردار نہیں۔ آج اگر ہم ہیں تو کل کوئی اور بھی ہو سکتا ہے اور ایسا ہو گا۔ مسئلہ کشمیر جو گذشتہ سات دہائیوں سے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے باوجود ابھی تک حل نہیں ہوا۔ ہندوستان کی ہٹ دھرمی اس مسئلے کے حل کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگست 2019ء میں ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر کی مسلمہ حیثیت کو تبدیل کر دیا جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ اسکے علاوہ ہندوستان کی حکومت مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ مسلمان اکثریت پر ہندو اقلیت کا غلبہ یقینی بنایا جا سکے۔ وزیراعظم نے دو ٹوک الفاظ میں پاکستان کے مؤقف کا اعادہ کیا کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی آزادانہ رائے کے مطابق حل نہیں ہوتا اس وقت تک جنوبی ایشیا میں پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے واضح طور دنیا کو باور کرایا کہ پاکستان برابری کی بنیاد پر ہندوستان سے اچھے تعلقات چاہتا ہے مگر ہندوستان کے توسیع پسندانہ اورانتہا پسندانہ عزائم اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ انہوں نے ہندوستان میں انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان اور مسلم اقلیت کے ساتھ روا رکھے جانے والے ناروا سلوک پر بھی دنیا کی توجہ دلائی۔ مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی اور دہائیوں سے حل طلب فلسطین ا سرائیل تنازعے پر بھی وزیراعظم نے کھل کر اظہار خیال کیا اور پاکستان کے اصولی مؤقف کا بھرپوراعادہ کیا کہ جب تک ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں نہیں آتا جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو اس وقت تک مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو سکتا اور یہ تنازعہ انتہا پسندی جیسے رجحانات کو فروغ دیتا رہے گا لہٰذا عالمی برادری اس صورتحال کا نوٹس لے اوراپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اسرائیل کو مجبور کرکے کہ وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل کرے۔ مقبوضہ فلسطین میں عورتوں، بچوں اور نہتے شہریوں کے خلاف اسرائیلی فوج کے جاری مظالم کا بھی ذکر کیا اور بھرپور مذمت کی۔ وزیراعظم نے یمن اور شام کی جنگ کا بھی ذکر کیااوران تنازعات کے پرامن حل پر زور دیا۔ افغانستان کے مسئلے کاذکر کرتے ہوئے وزیراعظم شہبراز شریف نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ افغان حکومت کی مدد کرے تاکہ افغانستان کے عوام کو درپیش بے انتہا مسائل کا خاتمہ ہو سکے۔ افغانستان کے منجمد شدہ اکائونٹ بحال کئے جائیں تاکہ وہاں کی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہو سکے۔ افغانستان پاکستان کا ہمسایہ ہے جس وجہ سے وہاں کے اندرونی حالات کا پاکستان پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ وزیراعظم نے اسلامو فوبیا جیسے اہم مسئلے پر بھی اپنی رائے کا اظہار کیا کہ دنیا مسلمانوں کو شدت پسند نہ سمجھے کیونکہ اسلام تو امن اور سلامتی کا سبق دیتا ہے۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جسے سمجھنے اور مل بیٹھ کر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح دہشتگردی کیخلاف جنگ اور اسکے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے پاکستان کی لازوال کوششوں اور قربانیوں کا ذکر کیا اور دنیا کو باور کرایا کہ اگر دنیا نے اس جنگ میں کامیابی حاصل کی ہے تو یہ پاکستان کی فوج اور عوام کی عظیم قربانیوں کی بدولت ہی ممکن ہواہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اہم سالانہ اجلاس سے خطاب بہت اہمیت کا حامل تھا۔ انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اہم اوربنیادی اصولوں کی روشنی میں دنیا کے سامنے اپنے ملک کا نقطہ نظر ایک مدلل اورپرجوش انداز میں پیش کیا۔ بالخصوص سیلاب کی تباہ کاریوں کے بارے میں وہ دنیا کو یہ باور کرانے میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں کہ یہ کتنا سنگین مسئلہ ہے جسکے ہم قطعی ذمہ دار نہیں مگر نشانہ بنے ہیں لہٰذا دنیا ہمیں بحالی نو میں بھرپورمدد کرے۔ا س خطاب کو دنیا میں سراہا جا رہا ہے اور وزیراعظم اپنے حالیہ دوروں،اہم عالمی رہنمائوں سے ملاقاتوں اورنقطہ نظر کی موثر انداز میں بیانی کی وجہ سے صحیح معنوں میں ایک سٹیٹس مین کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں جنہیں دنیا میں بھرپور پذیرائی ملی ہے جس کا فائدہ یقینی طور پر پاکستان کو ہوگا۔