”راہ“ بہرحال نکال لی گئی ہے
عمران خان صاحب جارحانہ انداز اپناتے ہوئے سوال تو بہت واجب اٹھارہے ہیں۔ہمارے ہاں حالات”معمول کے مطابق“ ہوتے تو اسحاق ڈار صاحب کو تقریباََ چار برس تک لندن میں ٹکے رہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اپنی عدم موجودگی میں وہ عدالتوں سے ”اشتہاری“ قرار پائے۔ ان کا پاسپورٹ بھی ضبط ہوا۔ رواں برس کے اپریل میں لیکن عمران خان صاحب وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوئے تو چند دنوں بعد یہ بحال ہوگیا تھا۔ ہونا تو چاہیے تھا کہ پاسپورٹ ملتے ہی ڈار صاحب ٹکٹ کٹواتے اور پہلا جہاز لے کر اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچ جاتے۔انہیں مگر ”کلیئرنس“ کے لئے کئی ہفتوں تک انتظار کرناپڑا۔ سوال اٹھتاہے کہ مبینہ یا حقیقی ”کلیئرنس“ کہاںسے مقصود تھی؟خان صاحب اس ضمن میں ”محافظوں“ کا ذکر کرتے ہیں۔میں ان کے اس دعوے کی تصدیق یا تردید کے قابل نہیں۔”اپنی اوقات“ بخوبی جانتا ہوں۔
ذمہ دار ذرائع سے گفتگو کے بعد البتہ یہ بیان کرسکتا ہوں کہ لندن ہی میں 2019ءسے مقیم نواز شریف صاحب ڈار صاحب کو عمران حکومت کے اختتام کے بعد رواں برس کے مئی ہی میں وطن بھیجنا چاہ رہے تھے۔ شہباز شریف صاحب کو تاہم ان دنوں پیغام ملا کہ عمران حکومت کی جگہ جس بندوبست کی انہوںنے قیادت سنبھالی ہے وہ جون کے مہینے میں 2022-23ءکے مالی سال کا بجٹ پیش کرنے اور اس کی منظوری کے بعد نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردے۔
آئی ایم ایف کے رویے کو نگاہ میں رکھتے ہوئے مگر حکومت میں جوبھی ہوتا اسے ایک ”سخت“ بجٹ ہی تیار کرنا پڑتا۔شوکت ترین بھی عوام کو اشتعال دلانے والے فیصلے لینے کو مجبور ہوتے۔ بجٹ کی وجہ سے عوام کو جو صدمے پہنچنا تھے انہیں ذہن میں رکھتے ہوئے شہباز شریف اور ان کے دیرینہ وفاداروں نے اس خواہش پر سنجیدگی سے غور شروع کردیا کہ نیا بجٹ تیار کرنے کے بجائے فی الفور نئے انتخابات پر آمادگی کااظہار کردیا جائے۔بجٹ کی تیاری اور اسے لاگو کرنے کا معاملہ ممکنہ طورپر ٹیکنوکریٹس پر مشتمل اس حکومت کے سپرد کردیا جائے جو انتخابات کروانے کے لئے قائم ہوئی”عبوری“ یا ”نگران“ حکومت کہلاتی ہے۔
مسلم لیگ (نون) مگر حکومت میں چند اتحادیوں کے بل پر بیٹھی ہے۔ پیپلز پارٹی اور جمعیت العلائے اسلام اس کے کلیدی حلیف ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کے سربراہان نے شدت سے اصرار کیا کہ اگر عمران خان صاحب کو ہٹاکر حکومت بنا ہی لی ہے تو اسے اپنی بقیہ آئینی مدت ہر صورت مکمل کرنا چاہیے۔ نواز شریف اگرچہ اس کے لئے آمادہ نہیں تھے۔ گھبراہٹ میں لہٰذا وزیر اعظم شہباز شریف اپنے چند بااعتماد وزراءسمیت لندن روانہ ہوگئے۔ان سے ہوئی ملاقاتوں کے دوران نواز شریف نئے انتخابات پر اصرار کرتے رہے۔فیصلہ بالآخر یہ ہوا کہ وطن لوٹتے ہی شہباز شریف صاحب قوم سے خطاب کریں گے۔ اس کے ذریعے وہ عوام کو آگاہ کریں گے کہ کونسی ٹھوس وجوہات کی بنا پر کسی سیاسی حکومت کے لئے ”عوام دوست“ بجٹ تیار کرنا ممکن نہیں رہا۔بہتر یہی ہوگا کہ ”تازہ مینڈیٹ“ کے تحت برسراقتدار آئی حکومت ہی ایک طویل المدت حکمت عملی کے ساتھ نئی معاشی پالیسیوں کا بوجھ اٹھائے۔میری اطلاع کے مطابق مجوزہ خطاب کا مسودہ بھی باہمی مشاورت سے لندن ہی میں تیار ہوگیا تھا۔
عمران خان صاحب نے مگر دریں اثناء25مئی کو اسلام آباد پر دھاوا بولنے کا اعلان کردیا۔ان کے اعلان کو ٹی وی پرسُن کر نواز شریف صاحب چراغ پا ہوگئے۔ انہیں شبہ ہوا کہ طاقت ور حلقوں میں ان دنوں بھی موجود عمران خان صاحب کے مبینہ ”سرپرست“ سابق وزیر اعظم کے جارحانہ انداز کو تھپکی دیتے ہوئے نئی حکومت کو ”بلیک میل“ کرنا چاہ رہے ہیں۔ایسے ماحول میں شہباز صاحب نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کردیا تو عوام کو یہ پیغام ملے گا کہ مذکورہ فیصلہ عمران خان صاحب کے ”خوف“ سے لیا گیا ہے۔ وہ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کی خواہش کے مطابق ”ڈٹ جانے“ کو آمادہ ہوگئے۔
”ڈٹ جانے“ کی مگر سیاسی قیمت بھی ادا کرنا تھی۔ مفتاح اسماعیل نے بجلی اور پیٹرول کے نرخوں میں ناقابل برداشت اضافوں کا اعلان کرتے ہوئے وہ قیمت ادا کرنا شروع کردی۔اس کے بعد آئی ایم ایف سے معاہدہ بھی ہوگیا۔اس کی شرائط پر عملدرآمد شروع ہوا تو مسلم لیگ (نون) کا ”ووٹ بینک“ تقریباََ خالی ہوتا نظر آیا۔سیاسی خودکشی دِکھتے فیصلوں کے باوجود مگر ڈالر کی قیمت بھی قابو میں نہ آپائی۔ مہنگائی آسمان کو چھونے لگی۔ غریب ترین پاکستانی بھی پچاس کے قریب اشیائے صرف خریدنے کو مجبور ہیں۔ان کی قیمتوں میں 45فی صد اضافہ ہوچکا ہے۔اگرچہ افراط زر کی عمومی شرح پاکستان میں اب تک 23فی صد تک محدود ہے۔
ڈالر کے نرخ بے قابو بنانے میں ٹھوس عوامل کے علاوہ سٹے بازوں نے بھی کلیدی کردار ادا کیا۔حتیٰ کہ ہمارے کئی بڑے بینک بھی سفاک ساہوکاروں کی طرح ”بہتی گنگا“ سے منافع نکالنے لگے۔ مفتاح اسماعیل بھلے آدمی ہیں۔ معیشت کو مگر ”ٹیکنوکریٹ“ کی طرح ڈیل کرتے ہیں۔علم معاشیات کے سنجیدہ طالب علم ہوتے ہوئے طلب ورسد کی وجہ سے نازل ہوئی مجبوریوں کو بلاجھجک بیان بھی کردیتے ہیں۔حکمرانوں کے لئے درکارسخت گیری اپنانے کی انہیں عادت نہیں۔ہماری نوکر شاہی کی ”چالاکیوں“ سے بھی بخوبی آگاہ نہیں۔ایسے عالم میں لازمی ہوگیا کہ ڈالر کے نرخوں کے حوالے سے ”مولا جٹ“ کی شہرت کے حامل ڈار صاحب کی وطن واپسی کی راہ نکا لی جائے۔
”راہ نکالنا“میں نے سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے۔ ”راہ“ بہرحال نکال لی گئی ہے ۔وہی عمران خان صاحب کی تلملاہٹ کو مزید جارحانہ بنائے ہوئے ہے۔ جو ”راہ“ نکالی گئی ہے اس کے بدلے شہباز حکومت کیا دینے کو آمادہ ہوگی اس کی بابت میں فقط اندازہ ہی لگاسکتا ہوں۔اپنے ذہن میں آئے ”تکوں“ کو مگر تحریری طورپر بیان کرنے سے گریز کروں گا۔ بہتر یہی ہے کہ یہاں آج کا کالم ختم کردوں۔دیہاڑی لگ چکی ہے۔میں نے ڈنگ ٹپالیا۔