بھارت کو تکلیف، گندم کی امپورٹ اور طالبان کا روس سے معاہدہ!!!!
دنیا میں کہیں بھی بھارت کے وزراءجائیں تو ان کا سب سے پہلا ہدف پاکستان ہی ہوتا ہے، بھارت کو ہضم نہیں ہوتا کہ دنیا پاکستان کی مدد کرے یا پاکستان کے عالمی طاقتوں سے اچھے تعلقات قائم ہوں۔ بھارت پاکستان کے حوالے سے منفی پراپیگنڈہ کرنے میں، جھوٹی خبریں پھیلانے اور جھوٹے بیانیے قائم کرنے اور اسے دنیا میں پھیلانے کے لیے بہت سرمایہ خرچ کرتا ہے۔ اس ساری مہم کا مقصد پاکستان کو تنہا اور افواجِ کو کمزور بنانا ہے۔ حال ہی میں بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کو امریکہ میں تکلیف اٹھی اور اس کی وجہ بھی پاکستان کو امریکہ کی طرف سے حاصل دفاعی تعاون تھا۔ جے شنکر کی بات تو میں کرتا ہوں لیکن اس سے پہلے اپنے ان پاکستانیوں کو جو صبح دوپہر شام افواجِ پاکستان کو نشانہ بناتے رہتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ بھارت کو اصل تکلیف پاکستان کی فوج سے ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان سیاسی مقاصد حاصل کرنے یا سیاسی مقاصد کے حصول میں ناکامی کے بعد سب سے پہلے افواجِ پاکستان کو نشانہ بنانا شروع کر دیتے ہیں اور ان دنوں بھی یہ سلسلہ عروج پر ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان اس معاملے میں ناصرف عوام کو گمراہ کر رہے ہیں بلکہ وہ اپنی ہر تقریر میں ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ فوج کو نشانہ ضرور بناتے ہیں۔ اسحاق ڈار کی واپسی پر گفتگو کرتے ہوئے بھی انہوں نے محافظوں کا لفظ استعمال کیا۔ جناب خان صاحب یہ آپ قوم کی خدمت نہیں کر رہے نہ آپ کے ایسے بیانات سے پاکستان کا فائدہ ہو رہا ہے۔ درحقیقت آپ عام آدمی کو فوج کے خلاف بھڑکا رہے ہیں۔ آپ نفرت کے بیج بو رہے ہیں۔ جب پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت آ رہی تھی مسلم لیگ نون سیاسی طور پر مشکلات کا شکار تھی اور ان کی قیادت بیرون ملک روانگی پر زور دے رہی تھی پھر آپ وزیراعظم بنے لگ بھگ ساڑھے تین سال تک وزیراعظم رہے آپ کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ اس وقت تک آپ کو محافظوں سے کوئی شکایت کیوں نہیں تھی۔ کچھ خدا کا خوف کریں اس ملک پر رحم کریں، اس ملک کے محافظ روزانہ اپنی جانیں وطن کی حفاظت کے لیے قربان کرتے ہیں ان شہداءکے خاندانوں کو تکلیف پہنچانا بند کریں۔ آپ کو اسحاق ڈار کی روانگی پر اعتراض تھا اب ان کی آمد پر برہم ہو رہے ہیں۔ ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے فوجی جوان دن رات متاثرین کی بحالی کا کام کر رہے ہیں آپ جلسوں اور کنونشنز میں مصروف ہیں، کیا یہ سیلاب میں ڈوبا پاکستان آپکا نہیں ہے، کیا اس کی ذمہ داری صرف محافظوں پر عائد ہوتی ہے۔ بھارت کم ہی پاکستان کے سیاسی حکمرانوں کو نشانہ بناتا ہے وہ اپنی سیاسی قیادت کے ذریعے ہمیشہ ہماری فوج کو ہدف بناتا ہے۔ آپ بھی وہی کام کر رہے ہیں۔ آپ سے پہلے اور لوگ بھی اسی راستے پر چل رہے تھے۔ کاش کہ ہمارے سیاستدان جے شنکر کے بیانیے پر نہ چلیں بلکہ قومی مفاد کو ترجیح دیں۔ جو لوگ آج حکومت میں ہیں انہیں بھی یہ ضرور دیکھنا ہے کہ گذشتہ دو تین برسوں میں وہ کہاں تھے اور کیا کر رہے تھے اور اگر آئندہ چند برسوں میں اگر وہ پھر اقتدار میں نہیں رہتے تو کیا پھر وہ بھی عمران خان کی طرح اپنے دفاعی اداروں کے خلاف باتیں کرنے کی حکمت عملی اپنائیں گے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
اب بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی تکلیف پر بات کرتے ہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ گزشتہ دنوں امریکی محکمہ خا رجہ نے پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی مرمت کیلئے سامان اور آلات فروخت کرنےکی منظوری دی تھی۔بعد ازاں بھارت نے پاکستان کو طیاروں کے پرزے فروخت کرنے پر امریکہ سے احتجاج کیا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ پاکستان کا دفاعی پروگرام ملک یا اس خطے سے ظاہر ہونے والی دہشتگردی کے خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت کو مضبوط بناتا ہے۔ یہ کسی کے بھی مفاد میں نہیں کہ ان خطرات کو بڑھنے دیا جائے۔ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کو اسلحے کی فراہمی سے متعلق بھارتی اعتراضات یکسر مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان کو نئے طیاروں ،نئے سسٹمز یا نئے ہتھیاروں کی فراہمی نہیں کی جارہی بلکہ پاکستان کے لیے منظور کردہ چار سو پچاس ملین ڈالرز کی ڈیل پہلے سے فراہم کیے گئے طیاروں کی دیکھ بھال کے لیے ہے۔ اب بھارت کو اس حوالے سے تکلیف ہے، جے شنکر کو پڑنے والے لفظی کنکروں کے بعد ان کی حالت کچھ اچھی نہ رہی اور وہ پاک امریکہ تعلقات پر طنز کرتے رہے۔ اب یہ دفاعی سامان کی ڈیل کیا ہمارے دفاع کی خاطر نہیں ہے۔ اس لیے ملک بھر میں سیاسی میدان کے کھلاڑیوں کو کم از کم اپنی فوج کے حوالے سے جے شنکر کا موقف اپنانے سے پہلے کچھ سوچنا ضرور چاہیے۔
افغانستان میں طالبان حکومت بھی ملکی مفادات کے پیش نظر اقدامات اٹھا رہی ہے۔ اس میں بھی عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں اگر دہائیوں کی جنگ کے بعد افغانستان اور روس تجارتی معاہدے کر سکتے ہیں تو ہمارے سیاستدان ایک میز پر بات چیت کیوں نہیں کر سکتے۔ طالبان حکومت نے روس سے تیل، گیس اور گندم خریدنے کے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ افغان قائم مقام وزیر تجارت حاجی نورالدین عزیزی کے مطابق روس افغانستان کو سالانہ دس لاکھ ٹن پیٹرول، دس لاکھ ٹن ڈیزل،سالانہ پانچ لاکھ ٹن ایل پی جی اور بیس لاکھ ٹن گندم دے گا۔ افغانستان میں طالبان حکومت کی مدد اور خطے میں استحکام کے لیے دنیا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ پاکستان کو بھی ناصرف افغانستان میں طالبان حکومت کی مدد میں ایک قدم آگے آنا چاہیے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے روس کے ساتھ بامقصد و بامعنی مذاکرات کی طرف بڑھنا چاہیے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف روس کے صدر ولاد یمیر پیوٹن سے ملے اس کے بعد اچھی خبریں سننے کو ملیں لیکن اب وقت ہے کہ ملک کے کروڑوں لوگوں کو توانائی کے بحران سے نکالنے اور ان کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے عملی اقدامات کی طرف جائیں۔
پاکستان کو توانائی کے بحران کا سامنا تو پہلے ہی تھا اب سیلاب کی وجہ غذائی بحران بھی دستک دے رہا ہے۔ اس سے نمٹنا کچھ آسان نہیں ہے۔ ہمیں غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کھانے کی بنیادی اشیاءبھی امپورٹ کرنا پڑ رہی ہیں۔ سیلاب سے ہونے والی تباہی کے بعد اب گندم باہر سے منگوانا پڑے گی۔ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان نے تین لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ درآمدی گندم کی کراچی پورٹ پر لینڈنگ کاسٹ 398.92 ڈالر فی ٹن پڑے گی جبکہ گوادر پورٹ پر گندم کی لینڈنگ کاسٹ 409.92 ڈالر فی ٹن پڑے گی۔ پاکستان ایک مرتبہ پھر مشکل دور سے گذر رہا ہے ان حالات کا مقابلہ کرنے اور کروڑوں لوگوں کو مشکلات سے نکالنے کے لیے سیاسی قیادت محافظوں پر انگلیاں اٹھانے کے بجائے سیلاب متاثرین کی حفاظت کرے، انہیں معمول کی زندگی کی طرف واپس لانے والوں کے ساتھ تعاون کرے اور اپنا کردار ادا کرے۔