وزیر خزانہ کا عزم پاکستانی کرنسی سے کھیلنے نہ دیں گے
چوہدری شاہد اجمل
chohdary2005@gmail.com وزیر اعظم کے ہمراہ لندن سے وطن واپس پہنچ کرمسلم لیگ(ن)کے رہنما اسحاق ڈار نے سینیٹ کا حلف اٹھانے کے بعد وزیر خزانہ کا حلف بھی اٹھا لیا ہے۔ اس طرح اسحاق ڈار کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہو گئی ہے،اسحاق ڈار کے لیے ملکی معیشت کے حوالے سے فیصلے انتہائی مشکل ہو ں گے کیونکہ اس وقت ملک کی معاشی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ملک کی معاشی حالت میں بہتری لاکر انہیںنا صرف اپنی قیادت کا اعتماد بحال کر نا ہے بلکہ ان کی کامیابی دراصل مسلم لیگ (ن)اور حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کی آئندہ عام انتخابات میں کامیابی کی بھی ضامن ہو گی ۔اسحاق ڈار کے کندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری ڈالی گئی ہے مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف نے اسحاق ڈار کو معاشی صورتحال کنٹرول کرنے کااہم ٹاسک سونپا ہے۔ وزیر خزانہ مقرر ہونے کے بعد اسحق ڈار کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک کو بہت بڑے اور مشکل چیلنجز کا سامنا ہے، معیشت کی بہتری کے لیے وقت دیں، ان شا اللہ ہم اس مسئلے سے پوری طرح نمٹنے کی کوشش کریں گے۔ سب کو معلوم ہے کہ مسلم لیگ (ن)نے جب حکومت چھوڑی تو اس ملک کی معیشت کہاں کھڑی تھی۔3دھرنوں کے باوجود پاکستان کی معیشت مضبوط تھی۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ گزشتہ برسوں میں جو کچھ ہوا میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ ہر چیز کو کھلا چھوڑ دیا گیا، روپے کی تباہی کے نتیجے میں مہنگائی ہوئی اور شرح سود 13 سے 14 فیصد تک پہنچ گئی۔ان کا کہنا تھا کہ پونے 4 سال کی اس تباہی کو پی ڈی ایم حکومت 5 ماہ میں ٹھیک نہیں کر سکتی،۔بیشک ہمیں اس وقت بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ہم نے ماضی میں بھی بڑی کامیابی سے ان کا سامنا کیا۔انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی بہت بڑے اور مشکل چیلنجز درپیش ہیں لیکن ان شا اللہ ہم ان سے پوری طرح نمٹنے کی کوشش کریں گے، کامیابی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔اسحق ڈار نے کہا کہ یہ بہت بڑا جھوٹ ہے کہ ماضی میں ہم نے مارکیٹ میں ڈالر پھینک کر روپے کی قدر کو کنٹرول کیا۔ ڈالر تھے کہاں جو ہم پھینکتے؟ اگر اس میں حقیقت ہوتی تو الزام لگانے والوں کی حکومت عوام کو سارا کچھا چھٹا بیان نہ کرتی؟ یہ سب دراصل ہماری کامیاب معاشی پالیسیوں کا نتیجہ تھا۔ آپ ہمیں وقت دیں ان سب عوامل کو درست راستے پر ڈالنا ہے جو آپس میں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔انہوں نے کہا کہ کسی کو پاکستان کی کرنسی سے کھیلنے کی اجازت نہیں ہوگی، قیاس آرائیاں کرنے والوں اور ہنڈی والوں کو یہ چیز سمجھ نہیں آتی کہ جب ڈالر ایک روپیہ بڑھتا ہے تو پاکستان پر 110 ارب روپے کا قرضہ بڑھ جاتا ہے، ان شا اللہ ہر چیز کو سنبھال لیں گے جیسے ماضی میں کیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف کا کہناہے کہ ہمیں اس بات کا افسوس ہے کہ ہم نے مہنگائی کا بہت بڑا بوجھ عوام کے کاندھوں پر ڈالا حالانکہ ہم اس کے ذمہ دار نہیں تھے۔وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ اسحق ڈار نے آج وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالا ہے، میں اپنی اور تمام کابینہ اراکین کی جانب سے اسحق ڈار کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ اسحق ڈار ایک تجربہ کار اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں، ہم سب ان کی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں، انہوں نے ماضی میں بھی وزارت خزانہ کا قلمدان کامیابی سے سنبھالا ہے، ہم سب کی دعا ہے کہ اللہ انہیں کامیابی عطا فرمائے اور اس مخلوط حکومت کو اسحق ڈار کی شمولیت سے مدد ملے۔وزیر اعظم نے کہا کہ مفتاح اسمعیل نے بہت محنت اور عرق ریزی سے کام کیا اور پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا، ہمیں اس بات کا افسوس ہے کہ مہنگائی کا بہت بڑا بوجھ ہم نے عوام کے کاندھوں پر ڈالا حالانکہ ہم اس کے ذمہ دار نہیں تھے۔انہوں نے کہا کہ اس کابینہ کے تعاون اور مفتاح اسمعیل کی بھرپور محنت کے ساتھ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو بحال کیا گیا اور منطقی انجام تک پہچایا، کابینہ کے تمام اراکین کو مفتاح اسمعیل کی خدمات کا اعتراف کرنا چاہیے۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے طالبان کے ساتھ دنیا کے مضبوط تعلقات کی بحالی کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے افغانستان کے حکمرانوں کو دوبارہ عالمی تنہائی کا شکار کرنے کی صورت میں خطرناک نتائج سے خبردار کیا ہے۔واشنگٹن کے دورے پر ایک انٹرویو دیتے ہوئے بلاول بھٹو نے امریکا کی جانب سے طالبان پر عدم اعتماد کے بعد افغانستان کے منجمد اثاثے سوئٹزرلینڈ کے پروفیشنل فنڈ میں منتقل جانے کے بعد متوازی گورننس قائم کرنے کے خلاف خبردار کیا۔بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے ماضی سے سیکھا ہے کہ جب ہم اپنے ہاتھ جھاڑ دیتے ہیں اور پیٹھ پھیر لیتے ہیں تو ہم اپنے لیے غیر ارادی منفی نتائج اور مزید مسائل پیدا کرتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ معاشی تباہی، پناہ گزین کی بڑی تعداد اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کے لیے نئی بھرتیوں کے خطرے کے بارے میں ہمارے خدشات، ان خدشات و تحفظات سے کہیں زیادہ ہیں جو ان کے مالیاتی اداروں سے متعلق ہو سکتے ہیں۔امریکا طالبان کے ساتھ مذاکرات سے پیچھے ہٹ گیا اور اگست میں کہا کہ انہوں نے القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کا استقبال کرکے وعدوں کی خلاف ورزی کی۔
ملکی سیاست میںوزیر اعظم ہائوس سے مبینہ طور پر لیک ہو نے والی آڈیوز نے نئی بحث کو جنم دے دیا ہے ۔وزیر اعظم شہباز شریف اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی لیک ہو نے والی آڈیولیکس نے جہاں سیاسی ماحول کو گرما دیا ہے وہاں ملک کے اعلیٰ ترین عہدے دار کے دفترکی سیکورٹی کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ۔عمران خان کی آڈیو نے تو امریکی سائفر کے حوالے سے تحریک انصاف کے ''سازش''کے بیانیے کو بے نقاب کر دیا ہے اس آڈیو سے پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے تحریک میں بیرونی سازش کا دعویٰ غلط ثابت ہو گیا ہے اور پی ڈٰ ایم اور حکومت میں شامل جماعتوں کے موقف کو درست ثابت کر دیا ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں کوئی بیرونی سازش کارفرما نہیں تھی ۔ مبینہ امریکی سائفر کے حوالے سے عمران خان اور اس وقت کے وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی گفتگو میں انہیں اس حوالے سے ہدایات دیتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔اس میں شاہ محمود قریشی اور سیکریٹری خارجہ کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ وہ لیٹر پڑھ کر سنائیں، وہ جو بھی پڑھ کر سنائیں گے اسے میٹنگ منٹس میں بدل دیں گے۔آڈیو میں مبینہ طور پر اعظم خان نے عمران خان سے مزید کہا کہ آپ سیکریٹری خارجہ کو بلائیں تا کہ بیوروکریٹک ریکارڈ پر چلا جائے۔جس کے بعد عمران خان کی آواز میں کہا گیا کہ نہیں تو اسی نے تو لکھا ہے سفیر نے۔جس پر اعظم خان کو یہ کہتے سنا گیا کہ ہمارے پاس تو کاپی نہیں ہے نا۔۔۔ یہ کس طرح انہوں نے نکال دیا۔اس پر مبینہ طور پر عمران خان نے کہا کہ یہ یہاں سے اٹھی ہے، اس نے اٹھائی ہے، لیکن خیر ہے تو غیر ملکی سازش۔حالیہ آڈیو لیک پر پی ٹی آئی کے رہنما ئوں نے ردِعمل ضرور دیا لیکن اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ نئی لیکس سے صرف یہ تصدیق ہوتی ہے کہ امریکی مراسلہ وزیراعظم سے چھپانے کی کوشش کی گئی انہوں نے سائفر کو جاری کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ پاکستانی عوام فیصلہ کر سکیں کہ کیا یہ سازش تھی یا اس سے بھی زیادہ۔