مرتضیٰ وہاب ذمہ داری قبول کرکے مستعفی
سید شعیب شاہ رم
shoaib.shahram@yahoo.com
کراچی گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاست کی ایسی رسہ کشی کی نظر ہوا جس میں چند سیاسی جماعتیں اختیارات اور وسائل پر قبضہ کرنے کیلئے عوام کی پرواہ کئے بغیر تمام حدیں پار کرنے کو تیار ہیں۔ جس کو جہاں موقع ملا اس نے اپنی جیبیں بھری اور عوام کو کچھ نہ دیا، اور آخر میں اختیارات نہ ہونے کا رونہ رو کر ہمدردیاں سمیٹنے کی روایت عام ہوگئی۔
چند دن قبل سوشل میڈیا پر ویڈیوز وائرل ہوئی جس میں کراچی کے شہری بلدیہ عظمیٰ کراچی ( کے ایم سی) کا ٹیکس کے الیکٹرک کے بلوں میں وصول کرنے کے فیصلے پر احتجاج کرتے ہوئے کے الیکٹرک کی گاڑیوں اور دفاتر پر کچرا پھینکتے نظر آئے، شہریوں کا احتجاج تھا کہ کراچی جو پہلے روشنیوں کے شہر کے نام سے جانا جاتا تھا اب پاکستان کے گندے ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑکیں کراچی کے خوبصورتی اور دنیا کے ساتوں بڑے شہر ہونے کی خصوصیت کو منہ چڑھا رہی ہوتی ہیں۔ کراچی کا کوئی ادارہ ایسا نہیں جو اپنی ذمہ داری پوری کر رہا ہو، چاہے وہ واٹر بورڈ ہو، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ہو یا کے ایم سی ہو، تمام ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہیں۔
اگرچہ ایک طرف سیاسی جماعتوں کی نااہلی ہے تو دوسری طرف عوام کی کوتاہیاں بھی ہیں جو اس شہر میں بس خانہ بدوشی جیسی زندگی گزارتے ہیں اور جس شہر سے بے شمار فائدے حاصل کرتے ہیں اسے دینے کیلئے ان کے پاس کچھ نہیں، جس طرح وہ اپنے گھر کا خیال رکھتے ہیں ایسے شہر کا نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کو وسائل کی کمی کا سامنا رہتا ہے۔ یہ بھی ایک علیحدہ بحث ہے کہ حکومت عوام کو سہولیات فراہم کرے تو لوگ ٹیکس دیں یا لوگ پہلے ٹیکس دے تو پھر حکومت عوام کو سہولیات فراہم کرے گی، اسی کشمکش میں شہر تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔
بند دن قبل ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضی وہاب نے اعلان کیا کہ کے ایم سی ٹیکس کے الیکٹرک کے بلوں میں وصول کیا جائے گا، جس پر فوری طور پر عملدرآمد ہوا اور لوگوں کو بجلی کے بلوں میں ٹیکس لگ کر موصول ہونا شروع ہوگئے۔ جس پر عوام کا شدید ردعمل سامنے آیا اور شہریوں نے اس پر احتجاج شروع کردیا اور یوں یہ کیس عدالت تک پہنچ گیا جہاں معزز عدالت نے عوام کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے کے الیکٹرک کے بلوں میں کے ایم سی ٹیکس کی وصولی کو عارضی طور پر روک دیا۔ اس فیصلے کے ردعمل میں ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضی وہاب نے استعفی دیدیا۔
مرتضی وہاب نے استعفی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ میں میونسپل یوٹیلیٹی چارجز اینڈ ٹیکسز (ایم یو سی ٹی) کی کے-الیکٹرک کے ذریعے وصولی کے فیصلے کی ذمہ داری لیتا ہوں اور عدالتی فیصلے کے بعد بطور ایڈمنسٹریٹر کام نہیں کرسکتا، اس لیے باضابطہ طور پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔میرے لیے سب سے آسان تھا حکومت سے شہر کے لیے فنڈز جاری کرنے کی اپیل کرتا لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ جس شہر کے بارے میں سب کہتے ہیں کہ یہ ملک چلاتا ہے اس کو خود مختار بناؤں۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ کیسے ہوتا ہے اس شہر کا بلدیاتی ادارہ اپنے ملازمین کی تنخواہیں ادا نہیں کرسکتا، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے اخراجات پورے نہیں کرسکتا، میں اس شہر کو، اس کے محکموں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا چاہتا ہوں۔ قانون کے مطابق چلنا ہی ہمارے لیے آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے، ہر مسئلے اور معاملہ کا حل آئین و قانون میں موجود ہے، قانون کے ایم سی کو مجاز بناتا ہے کہ شہریوں پر ٹیکس عائد کیا جائے۔
جب بارش کے دوران سڑکوں پر پانی کھڑا ہوتا ہے تو مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ پانی کیوں کھڑا ہے، جب ریونیو ہوگا تو شہر کی بہتری کے لیے خرچ کیا جائیگا، پوچھا جاتا ہے کہ حکومت کا کام ہے تو کام کیوں نہیں کر رہی اور جب حکومت کام کرتی ہے تو روک دیا جاتا ہے۔ یہ ٹیکس گزشتہ 15 سال سے نافذ ہے، وسیم اختر کے دور میں بھی یہ ٹیکس وصول کیا جا رہا تھا، کے ایم سی کا ٹارگٹ ایک ارب روپے جمع کرنا تھا جب کہ محکمہ صرف 21 کروڑ روپے جمع کرتا تھا، ملک چلانے والے شہر کا بلدیہ عظمیٰ کراچی 20 فیصد ریکوری کرتا تھا وہ پیسا کہاں جاتا تھا، وسیم اختر کے دور میں مبینہ طور پر معاہدے کے تحت صرف 16 کروڑ روپے کے ایم سی کے اکاؤنٹ میں آتے تھے، کیا اس رقم سے شہر چل سکتا ہے۔ میں نے غلطی یہ کی کہ میں نے جیب سے محبت نہیں کی، میں نے کے ایم سی سے محبت کی، میں نے ٹیکس کو خرد برد سے بچانے کے لیے کے الیکٹرک کے ذریعے ٹیکس وصولی کا فیصلہ کیا، قانون کسی بھی کمپنی کے ذریعے ٹیکس وصولی کی اجازت دیتا ہے۔ میں نے پرائیویٹ لین دین روکنے کے لیے سرکار کے ذریعے یہ کام کرنے کا فیصلہ کیا، کے الیکٹرک ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی ہے، اس کی بیلنس شیٹ پبلک ہوتی ہے، اس کے اکاؤنٹ میں اگر 100 روپے بھی آئیں تو اس کا آڈٹ ہوتا ہے،جسے ہر شہری چیک کرسکتا ہے۔ یہ معاہدہ ایک سال کی جہد وجہد اور تگ و دو کے بعد کیا گیا، اس دوران سندھ کی آئینی حکومت نے رولز کے مطابق اس کی منظوری دی، اس معاہدے کے تحت 16 کروڑ کے بجائے سوا تین ارب روپے جمع ہونے تھے جو شہر کا میئر اس کی ترقی کے لیے خرچ کرتا اور شہری اس کے بارے میں سوال کرنے کا حق رکھتے تھے۔ ہمارا کے الیکٹرک کے ساتھ معاہدہ ہوا کہ جتنا پیسہ بھی میونسپل ٹیکس کی مد میں اکٹھا ہو گا وہ آپ ہمیں دیں گے لیکن شاید کچھ لوگوں کو یہ چیز پسند نہیں تھی۔ مصطفیٰ کمال کے دور میں یہ ٹیکس 200 روپے سے شروع ہو کر 5 ہزار روپے تک تھا، وسیم اختر کے دور میں بھی یہ ٹیکس 5 ہزار روپے تھا، میں اس ٹیکس کو کم کرکے 50 روپے سے 200 روپے تک کیا لیکن شہر کی ا?مدنی بڑھادی، کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ اس شہر کے اداروں کے پاس پیسے ہوں۔مرتضی وہاب کے مطابق ماضی میں پیسے کسی کی جیب میں جاتے تھے، کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ شہر کے اندر پائیدار ترقی ہو، کچھ لوگوں کو اچھا نہیں لگتا کہ اب کے ایم سی کا دفتر فعال ہے اور دیگر محکموں سے سوال کرتا ہے کہ کیا کام کر رہے ہو۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ ایک سال کی محنت کے بعد ٹیکس جمع ہونا شروع ہوتا ہے تو 50 لوگ اس کے خلاف احتجاج کرتے ہیں، کچرا پھینکتے ہیں، اس کے خلاف پریس کانفرنس کرتے ہیں وہ لوگوں کو مس گائیڈ کرتے ہیں، میں نے عدالت کو بتایا کہ قانون اس ٹیکس کی اجازت دیتا ہے، کہا گیا کہ قانون ٹھیک ہے لیکن کے الیکٹرک کے ذریعے وصول نہ کیا جائے۔ حکومتوں کو مشورہ دوں گا کہ کوئی بھی قانون سازی کرنے سے قبل تمام جماعتوں سے مشورہ کرلیا کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ محنت کریں اور جب اس کا پھل آنا شروع ہو تو آپ کو کام کرنے سیروک دیا جائے۔ میں ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ یہ ٹیکس کراچی شہر اور اس کے عوام کی بہتری کے لیے تھا، میں نے شہر کو اس کے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے حکمت عملی بنائی، شہر کی بہتری کے لیے دن رات کام کیا، کورونا ہوا، اس دوران بھی صرف 2 روز آرام کیا اور پھر کام کرنا شروع کردیا، 15 ستمبر کو بارش ہوئی، 16 ستمبر کو ہم فیلڈ میں تھے۔
بحیثیت ایڈمنسٹریٹر میں اس فیصلے کی ذمے داری لیتا ہوں، وہ فیصلہ شہر کے لیے بہت اچھا تھا اور ا?ج چونکہ عدالت نے کے ایم سی کوایم یو سی ٹی کے الیکٹرک کے ذریعے اکھٹا کرنے سے روک دیا ہے، میں اخلاقیات والا شخص ہوں اور میری اخلاقیات اب مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں بحیثیت ایڈمنسٹریٹر کراچی اپنی خدمات جاری رکھوں اسی لئے باضابطہ طور پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔ میں اس عہدے پر اب مزید کام نہیں کرسکتا، میں عدالت کے فیصلوں کا احترام کرتا ہوں، کے ایم سی اب ٹیکس خود اکھٹا کرے گی، یعنی کہ اب یہ پیسا کسی کی جیب میں جائیگا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب میرے لیے ممکن نہیں ہے کہ اس عہدے پر کام جاری رکھوں۔