• news

مریم نواز ، صفدر بری ، نااہلی ختم 

اسلام آباد (وقار عباسی/ وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رہنما  مریم نواز اور کپٹن (ر) صفدر کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے احتساب عدالت سے سزا کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا اور دونوں کو بری کرنے کا حکم سنا دیا۔ گزشتہ روز سماعت کے دوران مریم نواز اور کپٹن صفدر اپنے وکیل امجد پرویز کے ہمراہ عدالت پیش ہوئے۔ اس موقع پر پرویز رشید، مریم اورنگزیب، حنیف عباسی، انجم عقیل خان، عطاء تارڑ، زیب جعفر، رومینہ خورشید عالم، سینیٹر رانا مقبول، میاں جاوید لطیف، زہرا فاطمی، عظمیٰ بخاری اور دیگر لیگی رہنما بھی موجود تھے۔ نیب پراسیکیوٹر عثمان جی راشد عدالت پیش نہ ہوئے جبکہ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی عدالت پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ عثمان غنی چیمہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، اگر عدالت اجازت دے تو میں دلائل دیتا ہوں۔ اس موقع پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے سردار مظفر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ سردار صاحب آپ نے ایون فیلڈ ریفرنس کا ٹرائل کیا آپ سے زیادہ کوئی اچھے دلائل نہیں دے سکتا۔ جس پر عدالت نے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی کو دلائل دینے کی ہدایت کردی۔ جس پر ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر نے کیس کا ریکارڈ پڑھنا شروع کر دیا۔ جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ سردار صاحب کیا یہ سارا آپ پڑھیں گے؟، عدالت نے پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ جو جو چیزیں کیس سے لنک ہیں‘ وہ پڑھیں۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ حسن اور حسین نواز نے سپریم کورٹ میں ایک متفرق درخواست دی، 26جنوری 2017ء کو یہ درخواست دی گئی تھی۔ طارق شفیع کا بیان حلفی ریکارڈ پر رکھا گیا تھا۔ اس بیان حلفی میں گلف سٹیل کی فروخت کا بتایا گیا۔ سپریم کورٹ نے سوال اٹھایا تھا گلف سٹیل مل بنی کیسے؟، طارق شفیع یہ دکھانے میں ناکام رہے تھے کہ وہ بزنس پارٹنر تھے، اس موقع پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے واجد ضیاء  کا بیان عدالت میں پڑھ کر سنایا، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ واجد ضیاء کا کردار تو جے آئی ٹی میں تفتیشی کا تھا، واجد ضیاء  نے تو بیان میں ساری اپنی رائے دی ہے، میں نے کبھی کسی تفتیشی کا ایسا بیان نہیں دیکھا، سردار مظفر عباسی نے کہا کہ واجد ضیاء  عدالت میں بطور تفتیشی نہیں بطور نیب گواہ آئے تھے، عدالت نے کہا کہ واجد ضیاء  کا یہ بیان اور سارا مواد پراسیکیوشن کا کیس کیسے ثابت کرتا ہے، جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ سوال وہی ہے اس سارے مواد سے آپ کوئی جرم کیسے ثابت کرتے ہیں؟، سردار مظفر عباسی نے کہا کہ واجد ضیا نے یہ سارا ریکارڈ خود دیکھا تھا، جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اثاثوں کے کیس میں مریم نواز کا نواز شریف سے لنک کیا ہے؟، دیانتداری سے کہیں تو ابھی تک کوئی لنک آپ نے نہیں دکھایا، سردار مظفر عباسی نے کہا کہ میں دستاویزات سے ہی پڑھ کر دکھاؤں گا، جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ وقت کیوں ضائع کرنا، سیدھا اس طرف آئیں نا، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ تفتیشی افسر کی رائے کو شواہد کے طور پر نہیں لیا جا سکتا، جے آئی ٹی نے کوئی حقائق بیان نہیں کیے، صرف اکٹھا کی گئی معلومات دیں، جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ یہ بتائیں کہ ان سب باتوں سے الزام کیسے ثابت ہو رہا ہے؟، سردار مظفر عباسی نے کہاکہ واجد ضیاء نے یہ ڈاکومنٹس خود دیکھے اور اس پر اپنی رائے کا اظہار کیا، جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ آمدن سے زائد اثاثوں میں نواز شریف اور مریم کا تعلق ثابت کریں، سردار مظفر عباسی نے کہاکہ میں ڈاکومنٹس سے دکھاؤں گا کہ یہ پراپرٹیز 1999 میں خریدی گئیں، جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ ان پراپرٹیز کی خریداری کے لیے کتنی رقم ادا کی گئی؟، آپ اس متعلق ڈاکومنٹ دکھائیں، زبانی بات نہ کریں، کل کو یہ ساری چیزیں ججمنٹ میں آنی ہیں، آف شور کمپنیوں نے اپارٹمنٹ کتنی قیمت میں خریدا؟، اپیل میں کام آسان ہوتا ہے کہ جو چیزیں ریکارڈ پر موجود ہیں انہی کو دیکھنا ہے، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ نواز شریف کا اس کیس کے حوالے سے موقف کیا ہے؟۔ جس پر سردار مظفر عباسی نے کہاکہ نواز شریف کا موقف تھا کہ ان کا اس پراپرٹی سے تعلق نہیں، عدالت نے کہا کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں بتائیں کہ مریم نواز، نواز شریف سے کیسے لنک کرتی ہے، ہر اپارٹمنٹ کی قیمت بتائیں کہ کتنے میں یہ پراپرٹی خریدی گئی، کیا پراپرٹی سے متعلق کوئی دستاویز آئی ہے جس میں کہا ہو کہ کتنے میں اور کب پراپرٹی خریدی گئی، اس موقع پر مریم نواز کے وکیل نے کہا ایسی کوئی دستاویزات نہیں جس میں یہ سب کچھ لکھا گیا ہو، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا 342 کے بیان میں مانا گیا کہ پراپرٹی کتنی میں خریدی گئی؟، مریم نواز کے وکیل نے کہاکہ 342 کے بیان میں کہیں پر کوئی ذکر نہیں، عدالت نے استفسار کیاکہ کیا یہ وہ واحد اور بہترین دستاویز ہے جو کیس میں پیش کی گئی؟، آخری سماعت پر عثمان چیمہ نے کہا کہ مریم نواز کا کردار 2006ء  سے شروع ہوتا ہے، ابھی آپ کہہ رہے ہیں کہ مریم نواز کا کردار 1993ء سے شروع ہوتا ہے، سردار مظفر عباسی نے کہاکہ میں عدالت کو صرف تین لائنوں میں کیس سمجھا دیتا ہوں، ہمارا موقف ہے نواز شریف نے یہ جائیدادیں مریم کے ذریعے چھپائیں، جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ آپ جو بات کہہ رہے ہیں اس کو شواہد سے ثابت کریں، اب اِدھر اْدھر نہ جائیں جو خود کہا اس کو ثابت کریں، وہاں ہر چیز ڈاکومنٹیڈ ہوتی ہے، ریکارڈ لانا مشکل نہیں، نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ ہم نے پراپرٹی کی ملکیت ثابت کر دی ہے، مالیت غیر اہم ہے، جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ آپ غلط بات کر رہے ہیں، آمدن سے زائد اثاثوں کے ریفرنس میں قیمت کا تعین ضروری ہے، نیب کے بیان میں بڑا تضاد ہے، کبھی کچھ بیان دیتے ہیں، پہلے نیب نے کہا مریم نواز 2006ء  میں لندن فلیٹس کی مالک بنی آج کہتے 1993ء  میں مالک بنی، نیب کا پورا کیس شریف خاندان کے اپنے جوابات پر بنایا گیا، اگر شریف خاندان سپریم کورٹ میں جواب دائر نہ کرتا تو کیس نہیں بن سکتا تھا، اگر ملزمان سپریم کورٹ میں متفرق درخواست نہ دیتے آپ کے پاس کچھ نہیں تھا، سردار مظفر عباسی نے کہاکہ یہ بیرون ملک بنائی گئی جائیداد کا کیس ہے جس کی دستاویزات بھی وہیں بنیں، جو ریکارڈ رسائی میں تھا وہی دستاویزات لائے اور کیا لاتے؟، جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ آپ اس کیس کو زیادہ بہتر طریقے سے بنا سکتے تھے، واجد ضیاء  کو پتہ چلا تھا اگر پانچ سو ملین مالیت ہے تو دستاویزات لائی جا سکتی تھیں، جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ گواہ اور ملزم بیانات ریکارڈ کراتے ہیں، تفتیشی افسر نے شواہد اکٹھے کرنے تھے،جو آپ نے ابھی پڑھا یہ ساری باتیں ہیں جو پی ڈبلیو 16 ہوئی ہے، دادا اگر اپنے پوتے کے لیے کوئی سیٹلمنٹ کر رہا ہے تو اس میں نواز شریف تو کہیں نہیں آیا،یہ کیس اب مکمل ہو چکا ہے، آپ نے صرف ٹائٹل ڈاکومنٹ دکھانا ہے،وہ ٹائٹل ڈاکومنٹ کہیں چھپا ہوا ہے،اس موقع پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے نیسکول اور نیلسن کمپنی کی دستاویزات عدالت کو دکھائیں، مریم نواز کے وکیل نے کہاکہ یہ تصدیق شدہ سرٹیفکیٹ آف ان کارپوریشن کی کاپی ہے، عدالت نے کہاکہ کئی دستاویزات پر ملزمان کے وکلائ￿  نے اعتراض اٹھائے تھے، آپ نے کہاں ثابت کیا کہ یہ ساری پراپرٹیز نواز شریف کی ہیں، اگر نواز شریف کا کردار ثابت ہو گا تو مریم کے کردار کو دیکھیں گے،دیکھنا ہے کہ کیا ٹرائل کورٹ نے فیصلہ میں ان اعتراضات کو وجوہات سے مسترد کیا؟، امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ یہ جو دستاویزات دکھا رہے ہیں ان پر لکھا کہ کسی کے’’ کئیر آف’’ سے آئیں،عدالت نے کہاکہ کیا جن کے ذریعے یہ دستاویزات آئیں ان کا بیان لیا؟، سردار مظفر عباسی نے کہاکہ ہمیں ضروت نہیں تھی، ملزمان نے جرح کرنی تھی تو لے آتے،جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ اب آپ کہہ رہے ہیں کہ مریم نواز ساری جائیداد کی بینیفشل مالک ہیں؟،تو کیا اب یہ سمجھیں کہ نوا شریف کا اس کیس سے تعلق ہی نہیں تھا؟،نواز شریف کا تو نام کہیں بھی نہیں آ رہا،سمجھ نہیں آتی نوازشریف کو آپ لنک کیسے کر رہے ہیں،آپ کی دستاویزات اب کہتی ہیں مالک مریم نواز تھیں، مریم نواز تو پبلک آفس ہولڈر نہیں تھیں ان پر اثاثوں کا کیس نہیں بنتا،یہ کوئی الگ ٹیکس کا کیس تو ہو سکتا ہے آمدن سے زائد اثاثوں کا نہیں،سردار مظفر عباسی نے کہاکہ ہمارا کیس ہے مریم نواز بطور نواز شریف کی بے نامی ملکیت رکھتی تھیں،جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ ہم آپ کی بات مان لیتے ہیں پھر اس کے شواہد دے دیں، جس پر سردار مظفر عباسی نے کہاکہ مائی لارڈ یہی جو دستاویزات آپ کو دیں یہ ثبوت ہی ہیں نا، برطانیہ کے محکمہ داخلہ کا لیٹر ریکارڈ پر موجود ہے،لیٹر کیمطابق مریم نواز ہی بینیفشل مالک ہیں،مریم نواز کے اپنے ذرائع آمدن نہیں تھے،کمپنیوں کی ان کارپوریشن کے دستاویزات بھی دکھا دیئے ہیں، عدالت نے کہاکہ اب اس لیٹر کو درست بھی مان لیں تو کیا ثبوت ہے وہ آج بھی بینیفشل مالک ہیں؟، سردار مظفر عباسی نے کہاکہ میں نے پہلے بتایا کہ نیلسن اور نیسکول کمپنیاں کب بنیں، پھر بتایا کہ ان کمپنیوں نے یہ پراپرٹیز کب خریدیں، انہوں نے انکار کیا کہ یہ پراپرٹیز 1993 سے ان کے پاس ہیں، جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ کمپنیز نے اس عرصہ میں ضرور پراپرٹیز خریدیں، مگر وہ کہتے ہیں کہ 2006ء  میں قطری فیملی سے سیٹلمنٹ کے بعد ان کے پاس آئیں، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ ان تمام ملزمان کو تو کچھ کہنا ہی نہیں چاہئے تھا اس سارے کیس میں، یہ کیس تو آپ نے ثابت کرنا تھا، جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ آپ کا کہا شاید ٹھیک ہو مگر آپ اس کو ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں، ہم صرف پبلک نالج یا کسی کی سنی سنائی بات پر فیصلہ نہیں سنا سکتے، الزام لگا دینا ایک الگ چیز ہوتی ہے، آپ ان پر الزامات  ثابت کرنے میں ناکام رہے، عدالت نے کہاکہ فلیٹس کمپنی کی اونر شپ ہونے پر تو کوئی اختلاف نہیں ،جس پر مریم نواز کے وکیل نے کہاکہ جی بالکل کوئی اختلاف نہیں، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ نیب لندن سے آئی دو دستاویزات کو شواہد کے طور پر پیش کر رہا ہے، اس ڈاکومنٹ پر تو دعوی ڈگری نہیں ہوتا، کرمنل کیس کیسے بن سکتا ہے؟، سردار مظفر عباسی نے کہاکہ نیب کا کیس مختلف ہے، ہم شریف فیملی کے موقف کو درست تسلیم نہیں کرتے، جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ نیب کا کیس پھر صرف دو لیٹرز پر ہے جو وہاں سے آئے، ان لیٹرز کے ذریعے نواز شریف کا تعلق کہیں دکھا دیں، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ اگر مرکزی کیس ثابت ہو گا تو پھر نیب کا تعلق آئے گا، جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ اگر نواز شریف کا تعلق نہیں تو پھر مریم نواز کے خلاف نیب کا کیس نہیں بنتا، سردار مظفر عباسی نے کہاکہ مریم نواز، نواز شریف کی پراپرٹیز کی بے نامی مالک تھیں، جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ بے نامی پر نہ جائیں اس میں پھر آپ خود پھنس جائیں گے، کوئی ایسا دستاویز ہے جو یہ واضح کرے کہ مریم کا ان پراپرٹیز سے تعلق کب شروع ہوا؟،2006ء  سے 2012ء  کے درمیان پراپرٹیز ان کمپنیز ملکیت تھیں یا نہیں، یہ کیسے پتہ چلے، جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ کیا آج کی تاریخ میں اس خط کی بنیاد پر مریم نواز ان پراپرٹیز کی بینیفشل اونر ہیں؟ جس پر سردار مظفر عباسی نے کہاکہ جی، آج بھی ہیں، جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ کیسے مالک ہیں کوئی دستاویز دکھا دیں، یہ بھی بینفشل اونر کی بات ہو رہی ہے قانونی مالک کی نہیں، سردار مظفر عباسی نے کہاکہ2017ء  میں بی وی آئی ایف آئی اے کی دستاویز کے مطابق وہ اب بھی بینفشل اونر ہیں،عدالت نے کہاکہ کیپٹین صفدر یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ ڈاکومنٹ کب بنا وہ کہہ رہا  ہے مریم کے دستخط ہیں، اس بنیاد پر آپ کسی کو کیسے سزا دے سکتے ہیں، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ تفتیش میں نواز شریف، مریم نواز یا کیپٹن صفدر گرفتار ہوا تھا؟،جس پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے بتایاکہ تفتیش میں ہم نے کسی کو گرفتار نہیں کیا تھا، عدالت نے استفسار کیاکہ آپ نے اور کچھ کہنا ہے ؟،نئے نیب قانون میں 9 اے فائیو کی الگ تعریف کی گئی، ہم نے پرانے قانون پر فیصلہ کرنا ہے،دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا،جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ پندرہ منٹ بعد شارٹ آرڈر پاس کریں گے،بعد ازاں اپنے مختصر فیصلہ میں عدالت نے اپیلیں منظور کرتے ہوئے احتساب عدالت کو فیصلہ کالعدم قرار دیدیا۔ یاد رہے کہ احتساب عدالت نے مریم نواز کو مجموعی طور پر8 سال اور کپٹن صفدر کو ایک سال کی سزا کا حکم سنادیا تھا، ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ سے فیصلہ سنائے جانے کے بعد عدالت کے باہر موجود کارکنوں نے ایک دوسرے کو مبارکباد دی اور مریم نواز کے کمرہ عدالت سے باہر آنے ہر ان کو گھیرے میں لے کر نعرے بازی کی۔ علاوہ ازیںاسلام آباد ہائیکورٹ نے مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی بریت کا مختصر فیصلہ جاری کردیا ہے۔ تحریری فیصلے کے مطابق  عدالت نے قرار دیا ہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت اسلام آباد کا 2018 کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی سزا کیخلاف اپیلیں منظور کی جاتی ہیں۔ مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی سزائیں کالعدم قرار دے کر انہیں ریفرنس سے بری کیا جاتا ہے، اپیلوں پر تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

ای پیپر-دی نیشن