ایون فیلڈ ریفرنس، پانامہ پیپرز سے شروع کہانی مریم، صفدر کی بریت پرختم
اسلام آباد (وقار عباسی /وقائع نگار) ایون فیلڈ ریفرنس 2016میں جرمن اخبار میں شائع ہونے والے پانامہ پیپرز سکینڈل سے شروع ہونے والی کہانی آج مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی بریت پر منتہج ہوئی ہے۔ پانامہ پیپرز جس میں دنیا بھر کے ہزاروں کاروباری شخصیات کی آف شور کمپنیز کے بارے میں انکشاف کیا گیا اور انہی پانامہ پیپرز میں پاکستان کے دیگر کاروباری شخصیات کے ساتھ ساتھ اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی فیملی کی ملکیت لندن کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس بھی شامل تھے جنہیں بنیاد بنا کر اس وقت میاں نوازشریف کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔ ان کے خلاف جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم ( جے آئی ٹی ) بنائی گئی اور پھر اس جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں قومی احتساب بیورو نے 8ستمبر 2017 کو میاں نواز شریف، ان کے دو بیٹوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف تین ریفرنسز دائر کیے گئے جبکہ اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کے چار ریفرنسز دائر کیے گئے۔ میاں نواز شریف اور ان کی فیملی کے خلاف بنائے گئے تین ریفرنسز میں ایون فیلڈ پراپرٹیز پارک لین لندن کے فلیٹ نمبر 16,16-A,17,17_A العزیزیہ سٹیل مل ، ہیل میٹل کمپنی جدہ، فلیگ شپ لمیٹڈ، اور دیگر 15کمپنیوں کو بنیاد بنایا گیا اور الزام عائد کیا گیا کہ میاں نوازشریف اور ان کی فیملی نے یہ جائیدادیں 1993میں غیر قانونی آمدن اور منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک بنائیں۔ پھر اسلام آباد کی احتساب عدالت میں 10ماہ تک نواز شریف اور ان کے فیملی خلاف بنائے گئے ان ریفرنسز کی سماعت ہوئی جس میں وہ احتساب عدالت میں پیش ہوتے رہے اور جولائی 2018 کو شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال جبکہ داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف پر 80 لاکھ پاؤنڈ اور مریم نواز پر 20 لاکھ پاؤنڈ جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔ اس کے علاوہ عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے لندن میں قائم ایون پراپرٹی ضبط کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو یہ سزائیں 2018 کے عام انتخابات سے صرف 19 دن قبل سنائی گئی تھیں۔ نواز شریف، مریم نواز اور محمد صفدر نے اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور 19 ستمبر 2018 کو ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کی جانب سے سزا دینے کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔ اس فیصلے کے ایک ماہ بعد 22 اکتوبر 2018 کو نیب نے نواز شریف، مریم نواز اور محمد صفدر کی رہائی کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔ تاہم عدالت عظمیٰ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے ملزمان کی سزا معطلی کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی اپیل خارج کردی تھی۔ علاوہ ازیںگزشتہ سال 6 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے مریم نواز کی ریفرنس کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی درخواست سے اعتراضات ختم کرکے سماعت کے لیے مقرر کردی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چلنے والے اس کیس میں قومی احتساب بیورو کا دارو مدار جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کی پیش کی جانے والی رپورٹ پر رہا جبکہ عدالت کا زیادہ زور نیب سے مسلسل اس رپورٹ میں لگائے جانے والے الزامات کے شواہد طلب کرتے گزرا جو نہ دئیے جانے پر مریم اور کیپٹن صفدر کی رہائی پر ختم ہو گیا ہے۔