سچ وہی ہے جو آپ کے من کو بھائے
جن ”ذہن سازوں“ کو ان دنوں ہماری ریاست کے اصل مالکان تک رسائی میسر ہے اپنے یوٹیوب چینلوں کے ذریعے دعویٰ کررہے تھے کہ جس ہیکر نے وزیر اعظم شہباز شریف کی مختلف لوگوں سے ہوئی گفتگو کو ریکا رڈ کرنے کے بعد انٹرنیٹ کی بدولت فاش کردیا تھا وہ ہمار ی سکیورٹی کے رکھوالوں کے قابو آچکا ہے۔یہ ”خبر“ دینے کے بعد امید یہ بھی دلائی کہ مزید لیکس کا سلسلہ ممکنہ ہیکر کی مبینہ گرفتاری یا نشاندہی کی وجہ سے اب رک جائے گا۔ یوں ”فکر ناٹ“ والا ماحول بنانے کی کوشش ہوئی۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے سرکردہ کارندے غالباََ اس ”خبر“کے بعد مطمئن محسوس کررہے ہوں گے۔ ان کا جی بہلانے کو ویسے بھی بدھ کے دن ایک اور آڈیو کی ”پہلی قسط“منظر عام پر آچکی ہے۔سابق وزیر اعظم عمران خان صاحب اس میں ہوئی گفتگو کے ذریعے امریکہ سے آئے سائفر سے ”کھیلنے“ کا ارادہ باندھتے سنائی دیتے ہیں۔ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اس ضمن میں کلیدی سہولت کار کا کردار نبھانے کو دل وجان سے آمادہ محسوس ہوئے۔
جس ہیکر نے تاہم شہباز شریف صاحب کی مختلف افراد سے ہوئی گفتگو کو ریلیز کیا تھا غالباََ عمران خان صاحب سے منسوب آڈیو کے منظر عام پر آجانے کی وجہ سے پریشان ہوگیا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وزیر اعظم ہاﺅس میں ہوئی گفتگو کی اس کے پاس سو سے زیادہ گھنٹوں کی ریکارڈنگ موجود ہے۔ان میں سے فقط چند”ٹوٹے“ اس نے منظر عام پر لانے کے بعد ”مزید“ کی تمنا بھڑکانے کی کوشش کی تھی اور اپنے پاس موجود تمام ”سامان“ فروخت کرنے کا اعلان بھی کردیا۔اس ضمن میں مطلوبہ رقم کی ”بولی“ کے عمل کا آغاز بھی کردیا گیا۔
اس کے پاس موجود ”سودے“ پر توجہ دینے کے بجائے بدھ کا سارا دن ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا پر چھائے ”ذہن سازوں“ نے عمران خان صاحب سے منسوب آڈیو لیکس کے پوسٹ مارٹم میں صرف کردیا۔جس ہیکر کی گرفتاری یا نشاندہی کی نوید سنائی گئی تھی وہ اپنے پاس موجود سودے سے توجہ ہٹنے کی وجہ سے یقینا تلملا اٹھا۔بدھ کی رات سونے سے قبل سوشل میڈیا پر سرسری نگاہ ڈالی تو ”خبر“ ملی کہ شہباز صاحب کی آڈیو لیک کرنے والا نظر بظاہر ریاستی اہلکاروں کے قابو میں نہیں آیا ہے۔جمعہ کے دن جس وقت آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تب تک وہ اپنے پاس موجود ”سامان“ سے چند مزید ٹوٹے ریلیز کرنے کا اعلان کرچکا ہے۔بات چل نکلی ہے دیکھیں کہاں تک پہنچے۔
موسلادھار بارش کی طرح برستی لیکس کے اس موسم کی بابت ذاتی طورپر میں قطعاََ لاتعلق محسوس کررہا ہوں۔مصر ہوں کہ جس ہیکر نے شہباز شریف صاحب کی آڈیوز لیکس کی ہیں اس کے پاس ”سنسنی خیز“ مواد موجود نہیں ہے۔ ابھی تک جو لیکس منظر عام پر آئی ہیں ان کا ٹھنڈے دل سے اگر جائزہ لیں تو شہباز شریف ”اچھی حکومت“ کی بلکہ علامت سنائی دیتے ہیں۔ جو معاملہ ان کے روبرو رکھا جائے اس کی بابت اپنے ساتھیوں سے بھرپور مشاورت کے بھی طلب گارسنائی دیتے ہیں۔
”سفارش“ چاہے ان کی بھتیجی یعنی مریم نواز صاحبہ کی جانب سے بھی آئے تو حکومتی قواعد وضوابط کے تحت ہی فیصلہ کرنے کا حکم صادر کرتے ہیں۔
میرا یہ دعویٰ کئی افراد کو ناراض کرسکتا ہے۔سیاست وصحافت کا طالب علم ہوتے ہوئے مگر یہ کہنے سے باز نہیں رہوں گا کہ بدھ کے روز عمران خان صاحب کی اپنے پرنسپل سیکرٹری کے ساتھ ہوئی گفتگو کا منظر عام پر آنا سابق وزیر اعظم کو بھی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ان کے دیرینہ حامی شدت سے اس امر پر قائل ہوچکے ہیں کہ خود کو دنیا کا حتمی پردھان سمجھتے امریکہ ہی نے عمران حکومت کو فارغ کرنے کی گیم لگائی تھی۔ ا ن کی دانست میں عمران خان صاحب دورِ حاضر کے ”مجاہد اسلام“ ہیں۔ پاکستان کو غیر ملکی دباﺅ کے مقابلے کے لئے خودمختار وتوانا بنانے کی تگ ودو میں مصروف تھے۔تیل کی عالمی منڈی میں نرخ طے کرنے والی اجارہ دار کمپنیاں امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک کی دفاعی اور خارجہ امور کے حوالے سے اپنائی ترجیحات کوبھی ذہن میں رکھتی ہیں۔ ان کے اجارہ کو جھٹکا لگانے کے لئے عمران خان صاحب رواں برس کے فروری میں ماسکو پہنچ گئے اور روسی صدر پوٹن کے ساتھ دوستی بڑھانے کی کاوشیں شروع کردیں۔ روسی صدر سے ملاقات کی وجہ سے عمران خان صاحب ”امریکہ کے کنٹرول“ سے باہر نکلتے نظر آئے تو روایتی سامراجی سازشوں سے کام لیتے ہوئے واشنگٹن میں بیٹھے شاطروں نے انہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھجوادیا۔
امریکی سازش کے تحت ” رجیم چینج“ کا تصور عمران خان صاحب کے ہر حامی کے دل ودماغ میں اب جبلت کی صورت بس چکا ہے۔ اس تصور کو ”جھوٹا“ثابت کرتی آڈیو لیکس اس کی سوچ بدل نہیں پائیں گی۔فقط چند روز ٹی وی سکرینوں پر ”تجزیہ کار“ ہی اپنی دوکان چمکاتے رہیں گے۔
بارہا اس کالم میں عالمی سطح پر مستند گردانے چند محققین کے حوالے دیتے ہوئے یہ عرض گزارتا چلا جارہا ہوں کہ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے بے تحاشہ ممالک اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے معاشروں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔”معروضی حقائق“ نام کی شے ایسے ماحول میں کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ان کی بنیاد پر لکھی ”خبر“ اور مضامین بھی کارزیاں ہیں۔ ہر فریق محض اپنی پسند اور تعصبات کی تائید،تصدیق اور اثبات فراہم کرنے والی ”خبر“’ کا متلاشی رہتا ہے۔ انگریزی زبان میں اس عمل کے لئے فقط ایک لفظ - Validation-استعمال ہوتا ہے۔محض یہ لفظ وہ ساراعمل بیان کردیتا ہے جو میں نے کئی الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔اس کے باوجود یہ خدشہ لاحق ہے کہ اپنی بات سمجھانہیں پایا ہوں۔
مختصراََ یوں کہہ لیں کہ ”سچ“وہی ہے جو آپ کے من کو بھائے۔اس کے ثبوت کے لئے آپ کو ”لیکس“ کی ضرورت نہیں۔جو بھی منظر عام پر آئے گا آپ کے دل میں پہلے ہی سے موجود خیالات یا تعصبات کا اثبات کرتا ہی نظر آئے گا۔ آنے والی لیکس سے محض لطف اندوز ہونے کی لہٰذا تیاری کریں۔وہ ہمیں یہ تلخ حقیقت قطعاََ نظرانداز کردینے میں بھی آسانی فراہم کریں گی کہ ہمارے چار کروڑ کے قریب پاکستانی ابھی تک کھلے ا ٓسمان تلے بے بس ہوئے بیٹھے ہیں۔ ان کی اکثریت کو ہرگز یقین نہیں کہ وہ آئندہ چند مہینوں میں گندم کی فصل لگانے کے قابل بھی ہوسکیں گے یا نہیں۔