شہری بازیاب نہ ہوئے توریاست کینا کامی کی وجہ بتائیں: جسٹس اظہر
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے لاپتہ شہری منیب اکرم کی بازیابی کی درخواست میں سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری دفاع، آئی جی اسلام آباد، چیف کمشنر اسلام آباد کے علاوہ آئی ایس آئی، آئی بی اور ایم آئی کے سیکٹر کمانڈرز کو شہری بازیاب کروا کر عدالت پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پیر تک شہری بازیاب نہیں ہوتا تو سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری دفاع، چیف کمشنر اسلام آباد اور سیکٹرکمانڈرز ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔ وکیل نے کہاکہ میرے موکل کو 20 اگست 2022 کو گھر سے اٹھا لیا گیا تاحال بازیاب نہیں ہوا، عدالت نے سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری دفاع اور آئی جی اسلام آباد کو طلب کرتے ہوئے سماعت میں دو بجے تک کا وقفہ کردیا، دوبارہ سماعت شروع ہونے پر انسپکٹر جنرل اسلام آباد نے عدالت کو بتایاکہ مقدمہ اسی وقت درج کر لیا گیا تھا، چیف جسٹس نے کہاکہ یہ واقعات بہت زیادہ ہو رہے ہیں اور یہ ناقابل برداشت ہے، دوسرے علاقوں کی سی ٹی ڈیز یہاں آ رہی ہیں، یہ عدالت نہیں جانتی کہ پولیس کیا کر رہی ہے اور دیگر ایجنسیز کیا کر رہی ہیں، اس شخص کو ہر حال میں بازیاب ہونا چاہیے، یہ ریاست کی ذمہ داری ہے، یہ شخص اس عدالت کی حدود سے اٹھایا گیا، اس شخص کو یونیفارم میں لوگوں نے اٹھایا ہے، جو پچھلا کیس تھا اس شخص کو کون اٹھا کر لے گیا تھا؟، اگر کوئی جھوٹی درخواست لے کر آتا ہے تو یہ عدالت اسکے خلاف کارروائی کریگی، اس شخص کو بازیاب کرانا آپکی اور چیف کمشنر کی ذمہ داری ہے، یہ سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری دفاع اور تمام سیکٹرز کمانڈرز کی ذمہ داری ہے، آپ سب کی ذمہ داری ہے کہ اس شخص کو پیر تک بازیاب کرائیں، اگر پیش نہیں کیا جاتا تو یہ تمام افسر پیر کو ذاتی حیثیت میں پیش ہوں، یہ تمام افسر تب تک روزانہ پیش ہوتے رہیں گے جب تک یہ شخص بازیاب نہیں ہو جاتا، ایسا واقعہ اس کے بعد دوبارہ نہیں ہونا چاہیے، ایس ایچ او صاحب آپکی اجازت کے بغیر کسی شخص کو اٹھایا نہیں جا سکتا، آپکی اجازت لے کر ہی یہ سی ٹی ڈیز باہر سے یہاں آ رہی ہیں، عدالت کو مجبور نہ کریں کہ ہم آپکے خلاف کارروائی کریں، چیف جسٹس نے منیب اکرم کو پیر کے روز صبح ساڑھے دس بجے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہاکہ یونیفارم میں آفیشل نے اس عدالت کے دائرہ اختیار سے بندے کو اٹھایا ہے، اگر شہری بازیاب نہ ہوئے تو عدالت کو ریاست کی ناکامی کی وجہ بتائیں۔