بڑی طاقتیں چین کی پیروی کرنے لگیں
خاور عباس سندھو
khawarsindhu@gmail.com
عوامی جمہوریہ چین آخر کار دنیا کی چند طاقتوں کو عملی طور پر یہ سمجھانے میں کافی حد کامیاب دکھائی دیتاہے کہ دنیا کو فتح کرنے کے لئے ترقی اور خوشحالی کو بطور ہتھیا ر استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ مداخلت بھی نہیں کرنی پڑتی ، کسی کی جان بھی لینی پڑتی اور نہ ہی کسی ملک کو مقبوضہ بنانے کی ضرورت ہے۔ دنیا کا دستور ہے کر بھلا سو ہو بھلا ۔ جی سیون ممالک نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا مقابلہ کرنے کے لئے اس کے مدمقابل اسی طرز کا پراجیکٹ شروع کرنے کا اعلان کیاہے ۔ کہاں اکیلا چین اور اس کے مقابلے میں دنیا کی سات بڑی معیشتیں ۔جی سیون کے کئی رکن بشمول اٹلی بی آر آئی کا باقاعدہ حصہ بن کر اپنا ترقی کا حصہ وصول کررہے ہیں۔ عالمی جوہری طاقتیں پاکستان ، روس وغیرہ بی آر آئی کے فروغ کے اہم کھلاڑی ہیں۔
عوامی جمہوریہ چین آج اپنا 73 واں قومی دن منا رہا ہے مگر اس نے 2013 میں شروع کئے میگا پراجیکٹ کو جس قدر کامیابی سے آگے بڑھایا ہے کہ کچھ ممالک اس کے خلاف پراپیگنڈا کررہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اس کو کاپی بھی کررہے ہیں مگر وہ اسے مقابلے کا نام دے رہے ہیں۔ دنیا پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں تباہی کے بعد تیسری جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی اور اس سے بچنے کا جو راستہ ہونا چاہیے ، بلاشبہ چین نے وہ فراہم کردیا ۔ کسی ملک میں مداخلت کی ضرورت نہیں ، البتہ اس کی ضروریات کیا ہیں ؟یہ پوچھنے کی ضرورت ہے ۔ امریکہ ، برطانیہ ، فرانس سمیت سات بڑی معاشی طاقتیں جب دنیا سے ان کی ضروریات پوچھنے کی ضرورت محسوس کررہی ہیں ،تب چین بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت کم وبیش 6 براعظموں میں 125 ممالک میں انفراسٹرکچر ، توانائی سمیت ان ممالک کی ناگزیر ضروریات پوری کرنے کے سفر میں بہت آگے بڑھ گیا ہے ۔
صدر شی جن پنگ نے ون بیلٹ ون روڈ کا جو تصور پیش کیا اور اسے اپنی منزل تک پہنچانے کے لئے جو ان گنت کامیابیاں سمیٹیں ہیں، چینیوں کے لئے قابل فخر ہونے سمیت بی آر آئی میں شامل ممالک کی حکومتوں اور عوام کی جانب سے بھی سراہی جارہی ہیں۔ کسی ملک کا بارڈر تبدیل ہوا نہ کوئی فوجی ، عام شہری مرا ،حتی کہ کسی ایک بچے کی جان بھی نہیں گئی اور ترقی و خوشحالی فضائوں کی طرح بغیر رکاوٹ پھیل رہی ہے۔ جی سیون ممالک نے جب 2021 میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کو کاونٹر کرنے کے لئے گلوبل انفراسٹرکچر منصوبے کا اعلان کیا تب چین ایک اندازے کے مطابق بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت دنیا بھر میں مختلف منصوبوں میں کم و بیش ایک ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکا۔
جی سیون لیڈرز نے جون 2022 میں ترقی پذیر ممالک میں انفراسٹرکچر کے لئے سرمایہ کاری کو بڑھا کر 600 ارب ڈالر کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔عین اسی وقت چین کا صرف ایک ملک (ایران) میں 400 ارب ڈالر مالیت کے منصوبے لگانے کا عمل عروج پرہے۔ چینی پراجیکٹ بیک وقت سیکڑوں ممالک میں رعنائیاں بکھیر رہا ہے ۔
چین جہاں دشوار گزار قدیمی شاہراہ ریشم کے ذریعے پہنچنے میں مہینوں ، سالوں لگتے تھے ،اب وہی خطہ پوری دنیا کوزمین کے ذریعے سالوں کے سفر کو مہینوں اور مہینوں کے سفر کو دنوں تک محدود کررہا ہے۔ کسے اندازہ تھا کہ چین کے صدر شی جن پنگ کا یہ آئیڈیا دنیا کو بدل کر رکھ دے گا اور آج دنیا کی بیشتر طاقتیں اس کے پیچھے چل پڑیں گی ۔ بظاہر مختلف طاقتوں کے رہنما بی آر آئی کو کاونٹر کرنے کی بات کررہے ہیں مگر حقیقت میں وہ چینی صدر کی پیروی کررہے ہیں ۔ میرا خیال ہے عالمی طاقتوں کی لیڈرشپ کو اب شی جن پنگ کو اپنا رہنما تسلیم کرکے ان سے رہنمائی لینے کی ضرورت ہے ۔ صدر شی کا یہ آئیڈیا دنیا پر حکمرانی کی بجائے دلوں پر حکمرانی کی ترجمانی کرتا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگیں ملکوں کی سرحدوں کو توڑ کر ان کے انفراسٹرکچر کی تباہی کی وجہ بنی ہیں اور چین کی بغیر ہتھیاروں کے جنگ ہر ملک کی سرحدوں کے احترام کے ساتھ ساتھ وہاں کے عوام کی زندگیوں میں بہترین و خوشحال طرز زندگی کا عملی پیغام لے کر آئی ہے۔ اگر تمہاری پالیسیاں کسی جان کے تحفظ اور آزادی سے جینے کے لئے نہیں ہیں تو یہ آج یا کل ختم ہوجائیں گی ۔
دنیا کو جنگوں سے فتح کیا جاسکتا ہوتا تو نپولین بوٹا پاٹ کا ملک فرانس اکیلا ویٹو پاور ہوتا۔ قتل و غارت گری ہی کامیابی ہوتی تو آج منگول تاریخ کے اوراق میں کہیں گم نہ ہوتے۔ امریکہ کا پسماندہ ترین یورپ کو اوپر اٹھانے کے لئے مارشل پلان آج بھی قابل قدر اور قابل تعریف ہے ۔ کئی دہائیوں بعد بھی یورپ کی ترقی پوری دنیا کے لوگوںکو اپنی طرف کھینچتی ہے جبکہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا سکوپ کسی ایک خطے یا براعظم کے لئے نہیں بلکہ ہر خطے کو یورپ بنانے کا پرکشش عملی منصوبہ ہے۔
چین کو پورا حق ہے کہ وہ اپنا قومی دن نہایت شاندار انداز میں منائے اور اس خوشی میں دنیا کے تمام ممالک شامل ہوجائیں تو کوئی مضائقہ نہیں ، یہ بھی چین کا حق ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔