قومی ترقی اور قومی زبان
سوال یہ ہے کہ قومو ںکی ترقی کا اصل سبب کیا ہے او رخصوصاً بعض نوزائیدہ ممالک نے کیونکر اپنے آپ کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کیا اور کیوں ہم اب تک باوجودیہ کہ افرادی قوت ہونے کے قومی اور اجتماعی شعور کے حوالے سے بے سمتی کا شکار ہیں۔ بات بہت سادہ سی ہے کہ اولاً خواندگی کا معیار بہتر بنائے بغیر ترقی ممکن نہیں اور دوئم یہ کہ علوم کی تدریس اس زبان میں ہونی چاہیے کہ جو اس ملک کے لوگوں کی گفتگو اور رابطے کی زبان ہو اگر علمی سطح پر اس زبان میں کمی ہو تب بھی ترجمے کے عمل کو تیز کر کے اور دوسری ترقی یافتہ زبانوں کے علوم کو تیزی سے اس زبان میں منتقل کر کے اس کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ اس کام کے لیے ملک کی جامعات کی زبانوں کی فیکلیٹز میں تالیف و ترجمے کے شعبے قائم کر کے او رانہیں فعال بنا کر انقلاب پیدا کیا جا سکتا ہے۔ سامنے کی بات ہے کہ عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد دکن نے ۱۹۱۷ء میں دارالترجمہ قائم کر کے ۳۰ سال کے قلیل عرصے میں تمام سائنسی علوم کی تعلیم مکمل طور پر اُردو زبان میں دینے کا آغاز کر دیا تھا مگر قیامِ پاکستان کے بعد اُردو کی ایک عدد یونیورسٹی قائم کرنے میں بھی 56برس لگے۔
حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ اُردو زبان کی خوبیوں پر بھی ایک نظر ڈالی جائے جہاں تک اس زبان میں ادب اور اس کی اصناف کے متعلق کتب کا تعلق ہے تو بلاشبہ اُردو ادب کو بڑے اعتماد اور یقین کے ساتھ دُنیا کی مختلف زبانوں کے ادب کی میزان میں رکھ کر تولا جا سکتا ہے۔ الفاظ، اصطلاحات، تراکیب،علامات، محاورات اور ضرب الامثال کے حوالے سے دیکھا جائے تو اب الفاظ کا تخمینہ ۴ لاکھ سے زیادہ ہے اور یہ سب الفاظ اپنی اسناد کے ساتھ سرکاری سطح پر مرتب کی گئی لغت میں موجود ہیں۔ متبادل الفاظ کی بھی کمی نہیں ترجمے کی ضرورت کے مطابق عربی، فارسی اور انگریزی کی مانوس اصلاحات ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں اُردو کے ضابطے کے مطابق اُردو زبان کا حصہ بن چکی ہیں۔ اُردومیں مختلف لغات مرتب ہو چکی ہیں۔ کمپیوٹر بھی اُردو زبان کو اسی طرح قبول کر چکا ہے جس طرح دوسری زبانوں کو۔ دنیا کی چالیس سے زیادہ بڑی یونیورسٹیوں میں اُردو زبان کی تدریس کا شعبہ قائم ہے۔
یونیسکو نے اپنی رپورٹوں میں اُردو زبان کو دنیا کی دوسری بڑی زبان قرار دے رکھا ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ عرب دنیا، مڈل ایسٹ، گلف، عرب امارات، سیکنڈے، نیوین ممالک، یورپی یونین اور شمالی امریکہ کا کون سا ایسا ملک ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں اُردو بولنے والے موجود نہیں اور جہاں اُردو کی محفلیں ، مجلسیں، مشاعرے منعقد نہیں ہوتے اور اخبارات و رسائل شائع نہیں ہوتے۔ اُردو ادب نہ صرف ایک بین الاقوامی زبان ہے بلکہ اس کا حلقہ اثر دنیا بھر میں روز افزوں ہے۔ اُردو کے اشاعتی اور طباعتی ادارے دنیا بھر میں موجود ہیں اور وہ عالمی معیار کی کتب شائع کرتے ہیں گویا یہی وہ مناسب وقت ہے کہ جب اُردو کے فروغ اور ترقی کے لیے قائم درجن بھر سرکاری ادارے ذاتی اغراض سے بالاتر ہو کر قومی زبان کے علمی سطح پر نفاذ کے لیے کمربستہ ہو جائیں ۔ اُردو زبان کی قومی حیثیت کو منوانے کے لیے سیاسی سطح پر کوششوں کی بھی ضرورت ہے۔
عوامی دبائو ہی عوامی نمائندوں کو پارلیمان میں آواز اُٹھانے پر مجبور کر سکتاہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک کی جامعات اور فروغ اُردو کیلئے قائم کیے گئے ادارے اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے باہمی ہم آہنگی اور تعاون کے ذریعے رواں عشرے کو اُردو کے نفاذ کا عشرہ قرار دے کر ہنگامی بنیادوں پر اُردو کو سائنسی شعور کا حامل بنانے کے لیے انقلاب برپا کریں اور اس کے ساتھ ضروری ہے کہ فی الحال انگریزی زبان کی علمی او رتدریسی حیثیت کو چیلنج کیے بغیر یہ کام کیا جائے تاکہ وہ وقت بھی آسکے جب اُردو غیر محسوس طریقے سے انگریزی کے متبادل کے طور پر تسلیم کر لی جائے اور وہ ازخود وہ مقام حاصل کرے جو اس نے سو سال پہلے فارسی زبان کے متبادل کے طو رپر حاصل کیا تھا اگر یہ اس وقت ممکن تھا تو یہ آج بھی ممکن ہے او راس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ بھٹکے ہوئے بے جہت اور بے سمت ہجوم کو ایک قوم کے قالب میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ حقیقی اور سچی ترقی کا خواب بھی اسی وقت شرمندئہ تعبیر ہو سکے گا جب اُردو کو قومی زبان کے طور پر قبولِ عام حاصل ہو گا اور یہ کام آج نہیں تو کل ہو گا۔