لیکس،سائفر اور سیاست
وطن عزیز میں مسائل کا طوفان آیا ہوا ہے جو سیلاب سے زیادہ تباہی مچا رہا ہے لیکن ہم اس تباہی سے بچنے کی بجائے بربادی میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔جس گھر کے تمام افراد اپنی بالا دستی کے لیے گھر کی عزت داو پر لگا رہے ہوں اس گھر کے مستقبل کا اندازہ لگانا مشکل کام نہیں ۔ حال ہی میں کسی ہیکر نے پاکستان کی سائیبر سیکیورٹی کا پول کھول کر پوری دنیا میں ہمارا تماشہ بنا دیا ہے۔ اب ہم اجلاس کرتے پھر رہے ہیں کہ یہ سارا کچھ کیسے ہو گیا۔ اب لکیر پیٹنے سے زیادہ اہم یہ بات ہے کہ اپنے آپ کو محفوظ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ کسی کے ہاتھ کسی کی گفتگو کا ایک آدھ ٹوٹا لگ جانا اور بات ہے لیکن 140 گھنٹے کی ریکارڈنگ کا مطلب ہے ۔ہیکر کئی دنوں بلکہ کئی ہفتوں تک آپ کی سائیبر سیکیورٹی کے ساتھ کھیلتا رہا ہے اور آپ کو پتہ ہی نہیں چلا اس ملک کی تمام اعلی شخصیات کی ریکارڈنگ ہیکر کے پاس موجود ہے۔ اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس میں کس قسم کی گفتگو اور راز موجود ہیں اور وہ اس کو کہاں کہاں کیسے استعمال کرتا ہے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ اس ہیکر کو پاکستان کے کسی دشمن ملک کی آشیرباد حاصل تھی یا کسی ملک کی جدید ٹیکنالوجی استعمال ہوئی ہے ہمارے ماہرین اس کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اصل ماجرا یہ ہے کہ اس لیکس نے بہت کچھ ننگا کر کے رکھ دیا ہے۔سائیبر سیکیورٹی بریچ کی تحقیقات کے لیے جس طرح کی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اس سے تو ایسے لگ رہا ہے جیسے پنجاب پولیس کے کسی روائیتی تھانیندار کو تفتیش سونپ دی گئی ہو۔ اس کمیٹی سے کوئی توقع رکھنا عبث ہے ۔البتہ ہماری ایجنسیاں اپنے طور پر جو تحقیقات کر رہی ہیں اس سے کوئی سراغ مل سکتا ہے لیکن اسے منظر عام پر نہیں لایا جائے گا ۔بہرحال لیکس کا جادو آجکل سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔ سوشل میڈیا پر تو دلچسپ بحث جاری ہے اور سب سے زیادہ ہیکر زیر بحث ہے ۔ اب اس کے ساتھ ہی سائفر کامعاملہ بھی از سر نو اٹھا لیا گیا ہے چونکہ حکومت سمجھتی ہے کہ عمران خان کو ساری شہرت اس سائفر کی وجہ سے ملی ہے اگر اس سائفر کو استعمال کر کے شہرت حاصل کرنے کی سازش ثابت کر دی جائے تو شاید عمران خان کی شہرت داغدار ہو جائے اور عوام میں ان کو بھی پذیرائی حاصل ہو جائے۔ حکومت روز اول سے عمران خان کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہی ہے لیکن ہر حربہ ناکام ہو رہا ہے اب ایک بار پھر سائفر پر دوبارہ کہانی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت عمران کی اڑان کو روکنے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں ۔بہر حال اب معاملات کہیں اور جا رہے ہیں فیصلہ کن راؤنڈ قریب آگیا ہے عمران خان نے اسلام آباد چڑھائی کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں حکومت نے بھی آخری حد تک جانے کے لیے منصوبہ بندی کر لی ہے۔ حکومت تاحال عمران خان کو نا اہل کروانے میں تو ناکام رہی ہے لیکن ایک آخری حربہ اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ عمران خان کی گرفتاری ہے۔ عمران خان نے پی ڈی ایم کی جماعتوں کو جتنا لتاڑا ہے ہر ایک کی خواہش ہے کہ عمران خان کو گرفتار کیا جائے خصوصا شریف خاندان کی سب سے بڑی خواہش ہے کہ کسی نہ کسی طرح عمران خان کو پابند سلاسل کیا جائے۔ پہلے وہ اداروں کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلانا چاہتے تھے جب ادھر سے انکار ہوا تو پھر پی ڈی ایم نے خود فیصلہ کرنے کی ٹھان لی ۔سائفر کی گمشدگی کا بہانہ بنا کر عمران خان کے گھر بنی گالا میں چھاپہ مار کر تلاشی لینے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔یہ راستہ بھی مریم نواز نے دکھایا ہے۔ ساتھ ہی عمران خان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی مدد چاہتی ہے۔لیکن ہر کارروائی کے راستے میں عمران خان کی عوامی پذیرائی آجاتی ہے۔ عمران خان کی عوامی شہرت ایک خوفناک ہتھیار بن چکا اب خوف یہ ہے کہ عمران خان کی گرفتاری پر عوامی ردعمل کیسا ہو گا۔ اس کا اندازہ نہیں لگایا جا رہا اور یہی ہتھیار عمران خان کے خلاف کارروائی میں رکاوٹ ہے چونکہ معاملات اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں اس لیے اب کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ عمران خان آخری کال دینے کے لیے تیار ہیں اور حکومت کو بھی پتہ ہے اب حالات 25 مئی جیسے نہیں ۔اب پنجاب ان کے پاس نہیں سب سے خوفناک یلغار پنجاب سے ہو گی ساتھ ہی ساتھ خیبر پختون خواہ، گلگت بلتستان اور کشمیر بھی اس میں عمران خان کے ساتھ ہو گا۔ اب مرکز کو چاروں طرف سے گھیرا جائے گا مرکز کو صرف سندھ سے مدد مل سکتی ہے لیکن وہاں کی دو تین ہزار فورس کچھ نہیں کر سکتی آخر کار مرکز کو رینجرز یا فوج کو بلوانا پڑے گا۔ وفاقی حکومت کو اندازہ ہے کہ اگر عمران خان بہت بڑی تعداد کے ساتھ اسلام آباد میں پڑاو ڈالنے میں کامیاب ہو گیا تو پھر اسے اٹھانا ممکن نہیں رہے گا ان کی کوشش ہو گی کہ عمران خان کو اس سے پہلے ہی گرفتار کر لیا جائے ۔عمران خان اپنی متوقع گرفتاری کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو چکا ہے لیکن اس کی پوری کوشش ہو گی کہ گرفتاری آسانی سے نہ دی جائے۔ اس سیاسی کشیدگی میں حالات کچھ اور رخ بھی اختیار کر سکتے ہیں پھر جس کے لیے سیاستدان اکثر پچھتایا کرتے ہیں لیکن فی الحال کوئی بھی لچک دکھانے کے لیے تیار نہیں اور سب آخری حد تک جانے کی تیاریوں میں ہیں۔