اسحاق ڈار کی واپسی اورروشنی کی کرن
یہ ایک معجزہ ہے اور ایسے معجزے کبھی کبھی ہی رونما ہوتے ہیں،لوگوں کو جلاوطن کیا جاتا ہے یا وہ خودساختہ جلاوطنی اختیار کرتے ہیں،اور پھر سازگار حالات دیکھ کر وہ واپسی کے راستہ پر آجاتے ہیں۔ ضیاالحق کے دور میں بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹوکو جلاوطن کیا گیا،اپریل 1986ء میں محترمہ بے نظیربھٹو کی واپسی بڑے دھوم دھڑکے سے عمل میں آئی۔ لاہوریوںنے ان کا فقیدالمثال استقبال کیا۔ جنرل مشرف کے دور میں نوازشریف اور ان کے خاندان کو جلاوطن ہونا پڑا۔اسی دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو بھی جلاوطنی کی زندگی گذارتی رہیں۔ محترمہ اس بار جلاوطنی ختم کرکے کراچی میں اتریں تو ان کے استقبالیہ جلوس کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ محترمہ کی واپسی نے نوازشریف کیلئے بھی واپسی کا راستہ کھول دیا۔ مگر محترمہ کو لیاقت باغ کے جلسے میں شہید کردیا گیا۔ بہرحال نئے الیکشن ہوئے اور جنرل مشرف کو اقتدار سے چلتا کردیا گیا۔
پاکستان میں جمہوریت کو کبھی مضبوط نہیں ہونے دیا گیا۔ نوازشریف اچھے بھلے اقتدار میں تھے۔ پنجاب میں ان کے بھائی شہبازشریف سی پیک کے منصوبوں کو پروان چڑھارہے تھے۔ مگر نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کی کرسی سے ہٹادیا گیا۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ حکومت مسلم لیگ کی تھی،لیکن اقتدار کی راہ داریوں میں ایسی ریشہ دوانیاں ہوئیںکہ خود حکومتی افراد کو اپنی جان کے لالے پڑگئے۔ ایسی ہی کیفیت میںاس وقت کے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو خودساختہ جلاوطنی کا فیصلہ کرنا پڑا۔ وہ وزیراعظم خاقان عباسی کے طیارے میں بیٹھ کر لندن گئے اور پھر علاج کیلئے وہیں رک گئے۔ اب وہ واپس آئے ہیں تو بھی ایک وزیراعظم کے طیارے میں…!یہ ان کی خوش بختی کی نشانی ہے ۔اسحق ڈار کو ایک تجربہ کار وزیرخزانہ سمجھاجاتا ہے ۔ پاکستان میں معاشی حالات انتہائی دگرگوںاور پریشان کن ہیں۔اس لئے معاملات کو درست کرنے کیلئے اسحاق ڈار ملک کیلئے ایک ضرورت بن گئے ہیں۔ اسحاق ڈار کی آمد کی خبروں سے ڈالر اپنی ساری چوکڑی بھول گیا،ان کے حلف اٹھانے تک ڈالر کی قدر دس روپے تک گھٹ گئی ہے۔
مگراس وقت ملک کو صرف ڈالر کا بحران درپیش نہیں ہے، پاکستان بحران در بحرا ن دلدل میں دھنسا ہوا ہے ۔ اس وقت سب سے بڑامسئلہ مہنگائی کا ہے، لیکن یہ مسئلہ بھی پاکستان کا اپنا پیدا کردہ نہیں ہے ۔ پاکستان پر مہنگائی کی بوچھاڑ دنیا کے دگرگوں عالمی معاشی حالات نے کی ہے ۔بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک بھی مہنگائی کے سامنے بے حال اور نڈھال دکھائی دے رہے ہیں۔پٹرول کی قیمتیں ہر جگہ لوگوں کی جیب پر بوجھ بنی ہوئی ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء کی مہنگائی نے ہر ملک کے عوام کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے ۔ یہ سارا کیا دھرا کرونا کا ہے ۔ کرونا نے وہ قیامت برپاکی ہے کہ خدا کی پناہ !اس نے عالمی معیشتوں کو ڈھیرکرکے رکھ دیا ہے۔ جب امریکی صدر پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے اپنے عوام سے معافی مانگیں، تو امریکہ کے سامنے پاکستان کی اوقات کیا ہے ۔ ہم تو درآمدی پٹرول استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان اتنا مالدار ملک نہیں ہے کہ وہ مہنگا پٹرول درآمد کرے اور سبسڈی دے کر لوگوں کی زندگی کو آسان بناسکے ۔ پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہوں گی تو بجلی کی مہنگائی بھی ایک مجبوری بن جاتی ہے ۔ پٹرول اور بجلی کی قیمتیں قابو سے باہر ہوجائیں تو مہنگائی کا جن پھنکارنے لگتا ہے۔ اس سے ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے ۔ اس لئے مہنگائی کا رونا دھونا سمجھ سے باہر ہے ۔ باقی رہی ، ڈالر کی اونچی اڑان۔تو یہ واحد مسئلہ نہیں جسے اسحاق ڈار نے فوری طور پر حل کرنا ہے ۔ ڈالر سے اسحاق ڈار کی پرانی لڑائی ہے ۔ لیکن وہ اس فن میں یکتا ہیں کہ ڈالر کو شکنجے میں کس لیں۔پہلے بھی ایک دفعہ ان کے دور میں ڈالر بے قابو ہوا تھا ، تو وہ اس کو 96روپے پر واپس لے گئے تھے ، وہ ڈالر مافیا کے مزاج کو سمجھتے ہیں۔ اب ڈالر مافیا اسحاق ڈار کے سامنے چوں چراں کرنے کے قابل نہیں ہے۔
اسحاق ڈار کے لئے ڈالر اور مہنگائی سے نبٹنا مشکل نہیں ہے۔ انہوں نے مہنگائی کو ایک بڑا جھٹکا اپنے پہلے فیصلے میں ہی دیدیاکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میںکمی کم کردی۔ اب وہ انتظامی کنٹرول کے ذریعے مہنگائی کے جن کو واپس بوتل میں آسانی سے بند کرسکتے ہیں۔ مگر اس کے لئے انہیں عالمی سطح پر بھی موافق حالات درکار ہیں۔ اگر یہ موافق عالمی حالات پیدا نہیں ہوتے ، تو پھر پاکستانی عوام کو بھی صبر،حوصلے اور برداشت کا مظاہر ہ کرنا ہوگا ، اس لئے کہ وہ دنیا بھر سے الگ تھلگ نہیں ہیں۔ اسحاق ڈار کے سامنے کوئی ایک مسئلہ ہو تو اس پر بات کی جائے۔ جب کہ ان کی آمد سے قبل ایک قیامت خیز سیلاب نے پاکستان کو تلپٹ کرکے رکھ دیا ہے ۔تین کروڑ پاکستانی سیلاب سے خانماں برباد ہیں۔ ملک کا ایک تہائی حصہ سیلاب کی لپیٹ میں ہے ۔لاکھوں گھر مسمار ہوچکے ہیں۔لاکھوں ایکڑز پر لہلاتی فصلیں برباد ہوچکی ہیں۔ وبائی امراض نے سیلاب زدگان بچوں،بوڑھوں ،خواتین کی جانیں لینا شروع کردی ہیں۔ سڑکوں اور ریلوے لائنوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔ ان کی مرمت وبحالی کیلئے کئی برس درکا رہیں۔ جبکہ اسحاق ڈار کو صرف ایک سال میسر ہے ۔ انہیں ایک چومکھی جنگ لڑنا ہے۔ انہیں ہماری دعائوں کی زیادہ ضرورت ہے ۔ وہ اللہ کی نصرت سے ہی اپنے مشن میں کامیابی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔ میری ذاتی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں ۔چھ سال قبل جب میری بینائی ضائع ہوناشروع ہوئی تھی، تو انہوں نے انسانی ہمدردی کی ایک لازوال مثال قائم کی تھی۔میں ان کی نیکیوں سے برسوں تک مستفیدہوتا رہاہوں۔ وہ میرے راوین فیلو ہیں اور میرے عزیز از جان دوست سعید احمد چمن کے کلاس فیلو بھی۔میں ان دونوں کی لیاقت اور صلاحیت کا معترف ہوں۔ مجھے سرنگ کے دوسرے سرے پر روشنی کی ایک کرن نظر آرہی ہے۔