امت مسلمہ کی حربی صلاحیت
ایک دفعہ حضرت سلیمان علیہ السلام دعوت پر ایک ایسے بادشاہ کے پاس تشریف لے گئے جو مال و دولت کے لحاظ سے اپنے وقت کا مشہور ترین انسان تھا۔ کھانا کھانے کے بعد اس بادشاہ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو اپنا خزانہ دیکھنے کی دعوت دی۔حضرت سلیمان علیہ السلام ہیرے جواہرات اور مال و دولت کے انبار دیکھ کر حیران رہ گئے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام متاثر ہونے کی بجائے مسکرادئیے۔میزبان نے مسکرانے کی وجہ پوچھی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ دولت آپ کے پاس صرف چند دنوں کی مہمان ہے ۔اس دولت کا اصل وارث وہ شخص ہوگا جس کے پاس آپ سے بہتر اور آپ سے زیادہ لوہا ہوگا اور پھر یہی ہوا۔ کچھ ہی عرصہ بعد ایک جنگجو قبیلے نے حملہ کیا اس امیر بادشاہ کی افواج جنگجو قبیلے کی تلواروں کی تاب نہ لا سکی اور میدان چھوڑ کر بھاگ گئی ۔تمام مال و دولت اس قبیلے کی ملکیت میں چلا گیا۔1258 ء میں جب ہلاکو خان نے بغداد فتح کیا تو اس نے بغداد میں خون کی ندیاں بہا دیں۔خلیفتہ المسلمین المحستم کو پنجرے میں بند کر دیا۔جب خلیفہ نے بھوک سے مجبور ہو کر کھانے کے لئے کہا تو ہلاکو خان نے خلیفہ کے جمع کئے ہوئے ہیرے جواہرات اسکے آگے رکھ دئیے۔ خلیفہ نے اعتراض کیا تو ہلاکو خان نے کہا بے وقوف انسان تم نے عوام کی ساری دولت اپنی ذات کے لئے ہیرے جواہرات اکٹھے کرنے پر لگا دی۔اگر یہ دولت فوج پر خرچ کرتے تو آج تم پنجرے میں بند نہ ہوتے۔ یہی قانون فطرت ہے اور یہی کچھ دنیا میں روز ازل سے آج تک ہو رہا ہے ۔ بد قسمتی سے ہمارے مسلمان حکمرانوں کا آج بھی رویہ یہی ہے۔ایک مضبوط فوج قومی سلامتی کی ضمانت ہوتی ہے۔
جنگ میں فتح حاصل کرنے کے لئے دو چیزیں بہت اہم کردار دا کرتی ہیں۔ پہلی اہم چیز لیڈر شپ اور دوسری ہتھیار۔ایک اچھا لیڈر نالائق اور کم تربیت یافتہ فوج کو بھی مؤثر طریقے سے استعمال کر کے جنگ کا پانسہ پلٹ سکتا ہے جبکہ ایک نالائق لیڈر اعلیٰ تربیت یافتہ فوج کو بھی تباہ و برباد کردیتا ہے۔ اچھے لیڈر کے فرائض میں یہ چیزیں شامل ہیں کہ وہ اپنی فوج کی بہترین تربیت کرے ۔جنگ کے جذبے سے سرشار کرے اور متوقع جنگ کے لئے ذہنی اور جسمانی طور پر تیار کرے ۔جنگی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں اچھی لیڈر شپ کی وجہ سے عددی طور پر کمزور اور کمتر افواج نے اپنے سے کئی گنابڑی ا فواج کو شکست دی۔ جنگی اصولوں کے تحت جب ہم عالم اسلام کا جائزہ لیتے ہیں تو مایوس کن صورت حال سامنے آتی ہے۔اسلام اس وقت دنیا میں دوسرا بڑا مذہب ہے۔ خدا کے فضل و کرم سے دنیا کے نقشے پر تقریباً 57آزاد مسلمان مملکتیں موجود ہیں۔ خدا نظر بد سے بچائے تقریباً ڈیڑھ ارب کی آبادی مسلمان ہے۔ دنیا کے ہر خطے ، ہر کونے اور ہر ملک میں مسلمان موجود ہیں ۔اگر مسلمان ممالک کی افواج کو شمار کیا جائے تو تربیت یافتہ اور نیم تربیت یافتہ افواج کی تعداد ایک کروڑ سے بھی اوپر ہے جو کہ بہت بڑی طاقت ہے لیکن جنگی کامیابیوں کی تاریخ صفر ہے۔
امریکہ نے 1954ء میں کوریا میں در انداز ی کی۔ طاقت کا بہت گھمنڈ تھا لیکن بالآخر دم دبا کر بھاگنا پڑا۔1960ء کی دہائی میں ویت نام پر چڑھائی کی۔ بمباری کر کر کے تمام ملک پائوڈر بنا دیا کئی سال جنگ جاری رہی۔ویت نامیوں پر ہر قسم کے ظلم توڑے ہر قسم کی پابندیاں لگائیں لیکن شاباش ہے ویت نامیوں پر اور خصوصاً ہوچی منہ کی قیادت پر جن کے عزم اور حوصلے نے امریکیوں کا بھرکس نکال دیا۔لٹے پٹے ،بے حال ، بے یارومددگار اور مفلوک الحال ویت نامیوں نے بہادری کی نئی تاریخ رقم کی اور امریکہ بہادر کو وہاں سے بھی دم دبا کربھاگنا پڑا۔یاد رہے کہ یہ دونوں ممالک غیر مسلم ہیں لیکن اس کے مقابلے میں مسلمان ممالک کی کارکردگی افسوس ناک اور پریشان کن ہے۔ فلسطین کو دنیا کے نقشے سے مٹایا گیا۔پاکستان کو ننگی جارحیت کے ذریعے دو لخت کر دیا گیا اور کسی نے اُف تک نہ کی۔ جو ہری طاقت ہونے کے باوجود محض ایک فون کال نے ہمیں جھکنے پر مجبور کر دیا۔افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔عراق کی تباہی بھی ہمارے سامنے ہے۔ الجزیرہ ٹی وی پر عراقی عورتوں اور بچوں کی لاشیں اور عراقیوں کو اپنے ہی وطن میں زنجیروں میں جکڑے ہوئے خار دار تاروں کے پیچھے جنگی قیدیوں کے روپ میں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ مسجدوں اور مزارات مقدسہ کی بے حرمتی اور تباہی ہماری بے بسی بلکہ بے غیرتی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔تمام مسلمان حکمران اپنی اپنی مصلحت کے تحت خاموش بلکہ اپنی اپنی پناہ گاہوں میں اس ڈر سے دبکے ہوئے ہیں کہ کہیں ان کی باری نہ آجائے۔اسرائیل اتنا چھوٹا ملک ہے کہ اگر عرب مل کر تھوک دیں تو یہ ڈوب جائے ۔اسکی کل آبادی ہمارے لاہور شہر سے بھی کم ہے۔1948ء میں جب یہ آزاد ہوا۔اسوقت اس کے پاس اپنی فوج بھی نہ تھی۔ایک ’’ ہگانہ ‘‘ نام کی چوکیدارہ فورس تھی۔آزادی کی رات کم و بیش آٹھ مسلمان عرب ریاستوں کی فوج نے مل کر حملہ کر دیا۔دنیا حیران رہ گئی جب اسرائیلیوں نے ان تمام افواج کو مار مار کر پیچھے دھکیل دیا۔اس دن سے لے کر آج تک عرب مل کر کئی جنگیں لڑ چکے ہیں۔ہر جنگ میں نہ صرف شکست کھائی بلکہ اپنا علاقہ بھی دے بیٹھے۔آج اسرائیل مشرق وسطٰی کی سب سے بڑی طاقت ہے اور تمام عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کرنے کے لئے بیقرار ہیں۔ اسکا جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔مسلمان ممالک حکمرانوں، اُمراء ، کرپٹ بیورو کریٹ ،تاجر حضرات ،سمگلروں اور ہیروئن فروشوں کی بے تحاشا دولت جو سب کی سب نا جائز ذرائع سے اور غریب عوام کو لوٹ کر اکٹھی کی گئی ہے۔امریکہ اور اہل مغرب کے بنکو ں میں جمع ہے۔اس تمام دولت سے اہل مغرب فائدہ اٹھا رہے ہیں اور غریب مسلمان اس کے اصل وارث ہونے کے باوجود ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں کوئی پرسان حال نہیں۔
اس وقت یورپ کی سرحدوں سے لے کر بنگلہ دیش تک ،جنوب مشرقی ایشیا ، تمام شمالی اور سنٹرل افریقہ سب مسلمان ہیں یا مسلمان اکثریت کے علاقے ہیں۔دنیا کا ایک چوتھائی حصہ مسلمانوں کے قبضہ میںہے۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے پاس نہ تو وسائل کی کمی ہے نہ زمین کی نہ افرادی قوت کی اور نہ جذبہ شہادت کی لیکن اس کے باوجود ہم اس وقت دنیا کی سب سے مفلوک الحال، بے بس اور پس ماندہ قوم ہیں۔ اسکی واحد وجہ ہماری جدید سائنسی علوم اور تحقیق و تجربات سے دوری ہے جسے ہم کفر کا نام دے کر رد کرتے رہے ہیں۔
تقریباً تمام مسلمان ممالک میں فوجی تربیت گاہیں تو موجود ہیں لیکن سینڈھر سٹ اور ویسٹ پوائنٹ کے معیار کی ایک بھی نہیں۔کسی مسلمان ملک میں معیاری سائنسی درسگاہیں نہیں ہیں اور سائنسی ترقی کے بغیر مادی ترقی ممکن ہی نہیں۔کسی مسلمان ملک میں معیاری تحقیق و تجربات اور اعلیٰ تعلیمی ادارے بھی نہ ہونے کے برابر ہیں اور سب سے تکلیف دہ امر یہ ہے کہ تمام مسلمان ممالک اعلیٰ ٹیکنالوجی اور بڑے ہتھیار بنانے کی صلاحیت سے بھی محروم ہیں۔ نہ ہی مستقبل قریب میں یہ صلاحیت حاصل کرنے کے مواقع یا ذرائع نظر آتے ہیں۔اگر اتنی بے پناہ دولت ، افرادی قوت ، دنیا کے وسیع خطے پر حکمرانی کے باوجود ہم پسماندہ ، مفلوک الحال ، بے بس اور محکوم ہیں تو اسکا کوئی اور ذمہ دار نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ نہ تو ہمیں مثالی لیڈر شپ میسر آئی اور نہ ہائی ٹیک ہتھیار۔وہ زمانہ تو اب نہیں رہا جب مومن بے تیغ بھی لڑتا تھا یا لڑسکتا تھا۔ ہمارا جذبہ جہاد اور جذبہ شہادت واقعی بہت بڑے ہتھیار ہیں لیکن موجودہ دور کا دشمن تو کئی ہزار میل دور بیٹھ کر بھی ہمیں نشانہ بنا سکتا ہے۔لہٰذا ہمیں جذبے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ قیادت اور اعلیٰ ہتھیاروں کی بھی سخت ضرورت ہے۔کسی نے ٹھیک کہا تھا کہ مسلمانوں میں اچھے لیڈر پیدا ہی نہیں ہوتے اور اگر کوئی غلطی سے ہو جائے تو وہ خود اسکا حلیہ بگاڑ دیتے ہیں۔ ہم دنیا میں سب سے زیادہ جذباتی نعروں کا شکار ہیں اور جذباتی نعرے جتنے زیادہ بلند ہوں گے ہم حقیقت سے اتنا ہی دور ہوتے جائیں گے۔اگر اب بھی مسلمان نہ جاگے اور جذباتی نعروں کی بجائے راہ عمل اختیار نہ کی تو ہم سے زیادہ بد قسمت قوم شاید دنیا میں کوئی نہ ہو تو پھر خدانخواستہ
’’ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں‘‘