• news

بھارت میں بڑھتی انتہا پسندی

بھارت جہا ں دنیا کا سب سے بڑاسیکولر ملک ہونے کا دـعویٰ کرتا ہے وہیں یہ بات بھی عیاںہے کہ ہندوستان میںپچھلے دس سال میں انتہاپسندی اور مذہبی تعصب کی فضا میں شدید اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ بھارت کے مسلم اور سیکولر حلقوں کی جانب سے مودی کو موجودہ دور کا ہٹلر قرار دیاجارہاہے۔ مودی سرکار کی سرپرستی میں ہندو انتہاپسندوں کو مکمل چھوٹ دے دی گئی ہے اور اپنے حقوق کی خاطرآواز بلندکرنے والی اقلیتی قومیںاس وقت ریاستی جبراور بربریت کا سامنا کر رہی ہیں۔ ہندوستان میں کانگریس جیسی بڑی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور مودی کی فاشسٹ طرزِ حکمرانی کے خلاف اپنا بیانیہ بنانے اور اسے سیاسی پلیٹ فارم پر چیلنج کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ 11 دسمبر2019ء کو سٹیزن شپ امینڈڈ ایکٹ( سی اے اے) بھارتی پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور کیاگیا۔ یہ قانون بظاہرپڑوسی ممالک میں تشدد اور تعصب کا شکار مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو شہریت دینے کے لیے بنایا گیا۔ ان اقلیتوںمیں ہندو،سکھ،عیسائی اوربدھ تو شامل ہیںلیکن مسلمان نہیں۔
بھارت میں مقیم مسلمان خوف کاشکارہیں۔ ان کا مستقبل خطرے میں ہے اور اس قانون کی وجہ سے بیس کروڑ مسلمان اپنے بنیادی حقوق کے حصول سے متعلق تحفظات کا شکار ہیں۔ اسی خوف کی فضا نے علی گڑھ یونیورسٹی، جواہر لعل یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ کے طلبہ کومشتعل ہونے اوراحتجاج کرنے پر مجبور کیا۔ اسی طرح ہندوستان کی حکمران تشدد پسند جماعت بی جے پی کی ایک رکن نے جنابِ رسالت مآب ﷺ کی شان میں گستاخی کی مگر نریند مودی نے اس رکن کوسزا دلوانے کی بجائے احتجاج کرنے والوںکے گھر گرانے شروع کردیے ۔کئی مسلم ممالک کے دبائو کے باوجود مذمت کا ایک لفظ نہیںکہاگیا۔ وہ مسلم ممالک جو بھارت کے قریب سمجھے جاتے ہیں اور ہر میدان میں بھارتی موقف کی تائید کرتے نظرآنے تھے اس مسئلے پر انھوں نے ردعمل کا اظہار کیا۔ اس حوالے سے احتجاج کرنے والے مسلمان مظاہرین کے خلاف کاروائیاں کی گئیں اور انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ریاست جھاڑ کھنڈ میںپولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ان پر سیدھے فائر کھول دیے جس سے دوافراد شہید ہوئے۔
اسی طرح آسام، کشمیر، کرناٹک اور اترپردیش میں ہزاروں مظاہرین پر انتہائی بے دردی سے بہیمانہ تشدد کیا گیا۔ علاوہ ازیں، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے مسلمانوں کے گھروں، مسجدوں اور مسلم اکثریتی علاقوں کے کاروباری مراکز میں توڑ پھوڑکی ۔ان مظاہروں کی کال کسی مذہبی تنظیم نے نہیںدی تھی بلکہ یہ مظاہرے عام لوگوں نے کیے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت میں عام افراد بھی کس حد تک انتہا پسند اور متعصب ہوچکے ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انھیں شہریت کے قانون اورتوہینِ رسالتﷺ کے خلاف آواز بلندکرنے کی وجہ سے اس بدترین تشدد کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میںمسلم خواتین کے حجاب پر پابندی کسی طور بھی ایک جمہوری اور سیکولر ریاست کے اقدامات نہیں ہو سکتے۔ بھارت دنیا میں مسلم آبادی کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر ہے اور اس کے اپنے ہاں مسلمان ہندوؤںکے بعد دوسری بڑی قوم ہیں لیکن اس کے باوجودکسی ایک بھی ریاست کا وزیراعلیٰ یا گورنر مسلمان نہیں۔ لوک سبھا یابرسرِاقتدار پارٹی میں ایک رکن بھی مسلمان نہیں۔ مسلمانوںکو اہم سیاسی پارٹیاں ٹکٹس نہیں دے رہیںجس سے ایوان میں مسلمانوں کی آواز کودبانے کی سازش کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
مسلمانوں کے بعد سکھ ہندوستان کی دوسری بڑی اقلیت ہیں۔ 2020ء میںسکھ کسانوں نے اس وقت کی حکومت کے منظور کردہ نئے قوانین کے خلاف آواز بلند کی تو ان کا تعلق تحریک خالصتان سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ اقلیتوں کے حق میں آواز بلند کرنے والے صحافی ،سوشل میڈیا ایکٹویسٹ اور انسانی حقوق پر بات کرنے والے افراد کو ہراساں کرنے کا عمل بھی جاری ہے۔بھارتی میڈیامسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈا ورنفرت انگیز تقاریر نشر کر کے تشدد اور فسادات کومزید ہوا دے رہا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ بھارتی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں نے اپنے بنیادی حقوق حاصل کرنے کے لیے جنگ خود ہی لڑنی ہے تاہم اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری کو بھارت کی اقلیتوں کے خلاف ریاستی غنڈا گردی کی سخت الفاظ میں مذمت کرنے اور اس پر قابو پانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
٭…٭…٭

ای پیپر-دی نیشن