• news

اسحاق ڈار سے توقعات

 سابق وزیرخزانہ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما جناب اسحاق ڈار پانچ سال سے زیادہ کی خودساختہ جلاوطنی ختم کر کے گذشتہ دنوں پاکستان واپس پہنچ گئے ہیں ان کی وطن واپسی کو سیاسی اورمعاشی لحاظ سے ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ اسحاق ڈار کے خلاف سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے ساتھ نیب نے ایک ریفرنس دائر کیا تھا جس کا تعلق آمدن سے زائد اثاثوں سے تھا۔ وہ ہمیشہ سے اس ریفرنس کو غلط اور انتقامی کارروائی قرار دیتے ہیں۔ وہ 2017ء میں برطانیہ چلے گئے تھے اور اس دوران عدالت نے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کی جائیداد ضبطگی کا حکم بھی دیا تھا۔ اسحاق ڈار کا شمار میاں نوازشریف کے قریبی اورانتہائی بااعتماد ساتھیوں میں ہوتا ہے اور وہ نوازشریف صاحب کے سمدھی بھی ہیں۔ انہیں پارٹی کی فیصلہ سازی میں بھی اہم حیثیت حاصل ہے۔ وہ اس سے قبل بھی تین مرتبہ ملک کے وزیرخزانہ رہ چکے ہیں اور اس لحاظ سے خزانہ اور اقتصادی امور کے معاملات کو چلانے میں وسیع تجربہ اور قابلیت رکھتے ہیں۔ اس سال مئی میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد اقتدار سنبھالتے وقت اتحادی حکومت کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا تھا جو اب بھی جاری ہیں۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مشکل ترین حالات میں وزارتِ خزانہ کا قلمدان سنبھالا اور اس دوران انہیں چند مشکل اور غیر مقبول فیصلے بھی کرنے پڑے جس بنا پر انہیں نہ صرف اپوزیشن بلکہ چند حکومتی لوگوں کی طرف سے بھی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا مگر ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے ان میں سے چند فیصلے بہت ضروری تھے۔ مفتاح اسماعیل کی کوششوں سے پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ گیا جبکہ آئی ایم ایف کا تعطل کا شکار پروگرام جو کہ ہماری زبوں حال معیشت کیلئے لائف لائن کی حیثیت اختیار کر چکا تھا وہ بھی آخر کار بحال ہوا۔
اسحاق ڈار بلاشبہ ایک محنتی اور قابل انسان ہیں۔ شروع دن سے اتحادی حکومت کے اول ترجیح میں وزیرخزانہ ہی تھے مگر چند قانونی پیچیدگیوں کی بنا پر وہ شروع میں یہ منصب نہ سنبھال سکے۔ عام تاثر یہی ہے کہ ان کے وزیر خزانہ بننے سے معیشت میں بہتری آئے گی اور لوگوں کی مشکلات بھی کم ہوں گی۔ اس سے قبل 1998ء میں جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تو پاکستان پر معاشی پابندیاں لگ گئیں جس وجہ سے معیشت شدید دبائو میں تھی اور لوگ بہت سے خدشات کا شکار تھے مگر اسحاق ڈار اور انکی ٹیم نے بہتر حکمت عملی کی وجہ سے ملک کو معاشی بحران سے نکال کر بہتری کی راہ پر ڈالا جو کہ یقینا بہت سے لوگوں کیلئے حیران کن بھی تھا۔ انہوں نے جس طرح زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہونے کے باوجود روپے کی قدر کو مستحکم کیا اورشرح نمو میں بہتری لائے وہ آسان کام نہیں تھا۔ اس کے بعد جب وہ دوبارہ 2013ء میںوزیر خزانہ بنے تو معیشت پھر بحران کا شکار تھی۔ اسحاق ڈار اور ان کی معاشی ٹیم نے جس طرح محنت اور پیشہ ورانہ طریقے سے معیشت کو سنبھالا وہ انتہائی قابل ستائش تھا۔ مارکیٹ کے منفی رجحان کو مثبت میں تبدیل کیا۔ روپے کی قدر مستحکم کی جس سے بہت سے ناقدین نے مصنوعی طور پر ڈالر کنٹرول کرنے سے بھی تشبیہ دی۔ زرِمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر سے زیادہ پہنچ گئے جبکہ شرح نمو6 فیصد کو کراس کر گئی۔ اس طرح سٹاک مارکیٹ بھی 53000 پوائنٹس کو کراس کر گئی۔ مہنگائی کی شرح تقریباً 5 فیصد تھی جبکہ شرح سود بھی ساڑھے 6 فیصد تھی۔ معاشی ترقی کے تمام اشاریے بہت مثبت تھے اور دنیا کے تمام معاشی ماہرین پاکستانی معیشت کو ایک تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت قراردے رہے تھے۔ ہماری معیشت کا مجموعی حجم 320 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا جبکہ معاشی ماہرین کہہ رہے تھے کہ 2025ء تک پاکستانی معیشت دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں شمار ہوگی۔ یہ تمام مثبت چیزیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ جناب اسحاق ڈار ایک محنتی اور قابل ماہر اقتصادیات ہونے کے ساتھ ساتھ ایک منجھے ہوئے منتظم بھی ہیں لہٰذا عوام کی طرف سے ان سے اچھی توقعات رکھنا کوئی غیر حقیقی بات نہیں۔
آج اور آج سے پانچ سال پہلے کے حالات میں بہت فرق ہے اور چیلنجز بھی بہت زیادہ ہیں لہٰذا اسحاق ڈار صاحب کیلئے کام ظاہر ہے اتنا آسان نہیں ہے۔ اس وقت آسمان سے باتیں کرتی ہوئی مہنگائی، بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی بے انتہا بڑھتی ہوئی قیمتیں، بے روزگاری، بڑھتی ہوئی شرح سود، تیزی سے کم ہوتے ہوئے زرِمبادلہ کے ذخائر، تیزی سے سکڑتی ہوئی شرح نمو، افراطِ زر، روپے کی تیزی سے کم ہوتی ہوئی قدر، بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ اور مارکیٹ کا منفی رجحان ایسے مسائل ہیں جنہوں نے عوام کا جینا مشکل ترین کر دیا ہے۔ ان تمام مشکلات میں مزید اضافہ آئی ایمایف کی کڑی شرائط اور تباہ کن سیلاب نے کردیا ہے۔ ڈار صاحب نے منصب سنبھالنے کو مارکیٹ کی قوتوں نے بھی سنجیدہ اور مثبت لیا ہے جس کی وجہ سے گذشتہ تین دنوں کے دوران روپے کی قدر میں خاطر خواہ بہتری آئی ہے جبکہ امید کی جا رہی ہے کہ یکم اکتوبر سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی نمایاں کمی کی جائے گی۔ وزیراعظم کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران آئی ایم ایف سے مذاکرات کے نتیجے میں ان کی طرف سے کچھ شرائط میں بھی نرمی متوقع ہے جس سے بجلی اور پٹرول کی قیمتیں کم ہوں گی جبکہ روپیہ بھی مستحکم ہو گا۔ مارکیٹ میں سرگرم منفی قوتیں اورمافیاز بھی محتاط ہو جائیں گے کیونکہ انہیں بھی اس بات کا اچھی طرح سے علم ہے کہ اسحاق ڈار کو اس طرح کے عوامل سے نمٹنے کا وسیع تجربہ ہے اور انہوں نے ماضی میں ایسا کر کے دکھایا بھی ہے۔مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نوازشریف کا بھرپور اعتماد ہونے کی بنا پر اسحاق ڈار کو فیصلہ سازی میں بھی آسانی ہوگی۔ وہ وزیراعظم کی طرح 20گھنٹے کام کرنے کی صلاحیت اور جذبہ رکھتے ہیں جبکہ بیورو کریسی سمیت کوئی بھی ان پر حاوی نہیں ہو سکتا۔

ای پیپر-دی نیشن