ٹرانس جینڈر قا نون خود منظور کیا ، اب عدالت کیا لینے آئے شر یعت کورٹ کا جے یو آئی سے استفار
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) وفاقی شریعت کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سید محمد انور نے جمعیت علمائے اسلام کی درخواست پر ریمارکس دیے ہیں کہ قانون خود منظور کیا تو عدالت کیا لینے آئے ہیں؟۔ کیا یہ جے یو آئی کی ذمہ داری نہیں تھی کہ جائزہ لیکر قانون بناتے؟۔ پانچ سال بعد جے یو آئی کو ٹرانس جینڈر بل میں خامیاں یاد آئیں۔ وفاقی شریعت عدالت میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف جے یو آئی کی درخواست پر سماعت قائم مقام چیف جسٹس سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین شیخ نے کی۔ قائم مقام چیف جسٹس شریعت کورٹ نے استفسار کیا کہ آپ کی درخواست میں نیا کیا ہے؟۔ وکیل کامران مرتضی نے کہا کہ اپنی جماعت کی نمائندگی چاہتے ہیں۔ اس پر قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ کیا جے یو آئی ٹرانس جینڈر قانون کی منظوری میں شامل تھی؟۔ وکیل کامران مرتضیٰ نے عدالت کو بتایا کہ ان کی جماعت نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کی حمایت کی تھی، چار سالوں میں قانون کا علم نہ ہونا ہماری نااہلی ہے تاہم اب جنس تبدیلی کے اختیار کی شق چیلنج کی ہے۔ چیف جسٹس شریعت کورٹ نے ریمارکس دیے کہ جس شق کا حوالہ دے رہے ہیں وہ غلط ہے، لگتا ہے آپ نے قانون پڑھا ہی نہیں، کیا یہ جے یو آئی کی ذمہ داری نہیں تھی کہ جائزہ لیکر قانون بناتے؟۔ 5 سال بعد جے یو آئی کو ٹرانس جینڈر بل میں خامیاں یاد آئیں۔ جب درجن درخواستیں عدالت آ چکی ہیں۔ وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا پارلیمنٹ میں ترمیمی بل بھی جمع کروا دیا ہے، آج پرائیویٹ ممبر ڈے پر بل پیش کیا جائے گا۔ قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت آنے کے بجائے پارلیمان میں بولنا چاہیے تھا۔ وفاقی شریعت عدالت نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف جے یو آئی کی درخواست دیگر درخواستوں کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے سماعت 18 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔