ڈالر نہیں تھے، درآمدی ادائیگیوں کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا: مفتاح
کراچی (نوائے وقت رپورٹ) سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کراچی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزارت سنبھالی تو درآمدی ادائیگیوں کیلئے ڈالرز نہیں تھے، ایسے حالات میں آئی ایم ایف کے پاس ہی جانا تھا، آئی ایم ایف نے سخت شرائط رکھیں، آئی ایم ایف نے کہا کہ دنیا کا کوئی ملک تیل پر سبسڈی نہیں دے رہا، ہم سعودی عرب سے سستا تیل فروخت کر رہے تھے، ہماری ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح بہت کم ہے۔ آئی این پی کے مطابق مفتاح اسماعیل نے کہا کہ پاکستان میں پرائیویٹ سیکٹر کے پاس اتنا بجٹ نہیں کہ حکومت کے بجٹ خسارہ کو پورا کر سکے۔ 2018ء میں جب حکومت چھوڑی تو ٹیکس جی ڈی پی ریشو11.1 فیصد تھا، اگلے تین سال پی ٹی آئی کے دور میں وہ شرح کم ہوتی رہی، اس سال پرانی جی ڈی پی شرح ہوتی تو 11.4، 11.6فیصد ہوتی، دنیا میں کوئی بھی ملک اتنی کم ٹیکس جی ڈی پی شرح پر نہیں چل سکتا، گزشتہ روز تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے اتنے اخراجات ہیں کہ 60فیصد ٹیکس وفاق کا ہوتا ہے، صوبوں کے پاس بہت پیسہ ہوتا ہے، زیادہ تر ٹیکس کلیکشن کی کوشش وفاقی حکومت کی ہوتی ہے۔ بقیہ صوبوں کی ٹیکس ایفرٹس بہت کم ہیں اور وہ خرچہ کر لیتے ہیں، سندھ تھوڑا سا کراچی سے ٹیکس لے لیتا ہے، پچھلے دس سال میں 400فیصد سول پیرل آف ایمپیٹ بڑھ گیا۔ ہم نے کئی ٹیکس لگائے، ہم نے ڈائریکٹ ٹیکس میں اضافہ کیا، ہم نے 40فیصد ڈائریکٹ ٹیکس بڑھایا، پچھلے چار سال میں پاکستان میں ان ڈائریکٹ ٹیکس لگتے رہے ہیں۔ میں نے کوشش کی کہ ڈائریکٹ ٹیکس لگائیں، پرائیویٹ لوگوں سے پیسے لے کر بنکوں میں لگائیں، پرائیویٹ سیکٹر کے پاس جتنی سیونگز ہوتی ہیں اتنی ہی خرید سکتے ہیں اور اتنی انوسٹمنٹ کر سکتے ہیں، پچھلے سال ساڑھے پانچ لاکھ ارب بجٹ خسارہ تھا، ہمارے ہاں ہر سال بجٹ خسارہ بہت زیادہ ہوتا ہے، یہ پہلی بار ایسا نہیں ہوا کہ اتنا بڑا بجٹ خسارہ ہوا۔