• news

اسلام آباد ہائیکورٹ کا عمران خان کیخلاف  توہین عدالت کا کیس ختم کرنے کا فیصلہ


چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے وسیع تر بینچ نے سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے بیان حلفی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ان کیخلاف توہین عدالت کا کیس گزشتہ روز نمٹا دیا۔ فاضل چیف جسٹس نے یہ فیصلہ سناتے ہوئے باور کرایا کہ وسیع تر بنچ کا یہ متفقہ فیصلہ ہے۔ بادی النظر میں یہ توہین عدالت تھی تاہم عمران خان کے رویے پر عدالت ان کیخلاف کارروائی ختم کر رہی ہے۔ گزشتہ روز عمران خان اپنے وکیل حامد خان کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ پی ٹی آئی کے عہدیداران مخدوم شاہ محمود قریشی اور اسدعمر بھی کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔ دوران سماعت حامد خان نے موقف اختیار کیا کہ ہم نے عدالتی حکم پر بیان حلفی داخل کرادیا ہے۔ اس پر فاضل چیف جسٹس نے قرار دیا کہ ہم بیان حلفی پر جائیں گے جو ہم نے پڑھ لیا ہے۔ توہین عدالت کے کیسز میں ہم بہت احتیاط کرتے ہیں۔ عمران خان کا ڈسٹرکٹ کورٹ جانا اور یہاں پر معافی مانگنا بہتر اقدام ہے۔ فاضل عدالت نے مزید ریمارکس دیئے کہ بادی النظر میں یہ توہین عدالت تھی تاہم عمران خان کے رویے پر عدالت یہ کارروائی ختم کررہی ہے۔ 
اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ عمران خان نے غیرمشروط معافی نہیں مانگی جس پر فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عمران خان کا معافی کا بیان حلفی اور رویہ عدالت کیلئے قابل اطمینان ہے جبکہ ان کا کچہری جا کر خاتون جج سے معافی مانگنا بھی اچھا اقدام ہے۔ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عمران خان کے ماضی کے رویے سے متعلق کچھ ریکارڈ پیش کرنے کی اجازت طلب کی جس پر فاضل چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ آیا وہ نہال ہاشمی اور دانیال چودھری کے کیس کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ وہ کل تک اپنا جواب جمع کرادیں۔ انکے اعتراضات کو عدالت تفصیلی فیصلے میں شامل کر دیگی۔ 
اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اپنی عوامی مقبولیت کے زعم میں ریاستی اداروں اور ان سے وابستہ شخصیات کے معاملہ میں اپنے پبلک جلسوں میں توہین آمیز لہجے میںبات کرتے ہیں۔ اپنے مخالف سیاست دانوں کے نام بگاڑ کر انہیں عامیانہ انداز میں مخاطب کرنے میں تو وہ کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ انہوں نے ریاستی اداروں افواج پاکستان اور عدلیہ میں اپنے بیانات کے ذریعے تفریق پیدا کرنے سے بھی گریز نہیں کیا اور بطور خاص چیف الیکشن کمشنر کو بھی اوئے توئے کے انداز میں مخاطب کرتے رہے ہیں اور ان کا گزشتہ روز کا یہ بیان بھی عدلیہ میں امتیاز پیدا کرنے کے تاثر پر ہی مبنی ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ ہمیشہ زبردست فیصلے کرتی ہے۔ انکی پارٹی کی صفوں میں سیاسی مخالفین اور ریاستی اداروں کے بارے میں عمران خان کے جارحانہ طرز عمل کی اس تصور کے تحت ستائش ہوتی ہے کہ اس سے عمران خان اور انکی پارٹی کی عوامی مقبولیت بتدریج بڑھ رہی ہے۔ اسی تناظر میں عمران خان نے اپنے چیف آف سٹاف شہبازگل کی گرفتاری اور انکے جسمانی ریمانڈ کیخلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا تو راولپنڈی میں احتجاجی مظاہرے کے دوران شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے جوش جذبات میں انہوں نے جہاں پولیس اور بیوروکریسی کے متعلقہ حکام کے بارے میں سخت اور عامیانہ الفاظ استعمال کئے وہیں انہوں نے شہبازگل کا جسمانی ریمانڈ دینے پر خاتون ایڈیشنل سیشن جج محترمہ زیبا کا بھی نام لے کر انکے بارے میں توہین آمیز ریمارکس ادا کئے جس پر خاتون جج نے خود متعلقہ پولیس تھانے میں مقدمہ درج کرایا جس میں دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ بھی شامل کی گئی۔ اس سے اگلے روز اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی متذکرہ تقریر کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے انہیں توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیئے اور قرار دیا کہ یہ محض ایک خاتون جج کا نہیں‘ بلکہ پوری عدلیہ کا معاملہ ہے کیونکہ سیاست دانوں نے عدلیہ سے توہین آمیز الفاظ میں مخاطب ہونا اپنا رویہ بنالیا ہے۔ 
عمران خان نے اس کیس میں اپنی پارٹی کے ناراض عہدیدار حامد خان کو اپنا وکیل مقرر کیا جنہوں نے عمران خان کی جانب سے تحریری جواب داخل کرایا۔ اس میں عدالت سے غیرمشروط معافی مانگنے سے گریز کیا گیا چنانچہ فاضل عدالت نے انہیں ایک ہفتے کی مہلت دی کہ وہ اپنے بیان میں ترمیم کرکے اس میں غیرمشروط معافی کے الفاظ شامل کریں۔ اگلے ہفتے عمران خان کی جانب سے کم و بیش وہی بیان عدالت میں دوبارہ داخل کرایا گیا جس کا فاضل عدالت نے نوٹس لیا اور ان کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کیلئے ان پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی دوران اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی اندراج مقدمہ کیخلاف دائر درخواست نمٹاتے ہوئے مقدمہ میں شامل کی گئی انسداد دہشت گردی ایکٹ کی شق ختم کرنے کے احکام صادر کر دیئے اور قرار دیا کہ انکی تقریر کی بنیاد پر ان کیخلاف دہشت گردی کا کیس نہیں بنتا۔ 
گزشتہ ماہ 22 ستمبر کو جب عمران خان پر فردجرم عائد کرنے کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو عمران خان کے وکیل حامد خان نے انکی جانب سے فاضل عدالت میں بیان حلفی داخل کرایا جس میں کہا گیا کہ اگر انکی تقریر سے فاضل خاتون جج کی دل آزاری ہوئی ہے تو وہ انکے پاس جا کر ان سے معافی مانگنے کو تیار ہیں۔ بیان حلفی میں اس امر کی بھی یقین دہانی کرائی گئی کہ وہ آئندہ ایسے کوئی الفاظ ادا نہیں کرینگے جس سے توہین کا پہلو نکلتا ہو۔ فاضل عدالت نے اس بیان حلفی پر صاد کرتے ہوئے عمران خان پر فردجرم عائد کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا اور توہین عدالت کیس کی مزید کارروائی 3 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ اس دوران عمران خان اپنے وکلاء اور پارٹی عہدیداروں کے ہمراہ خاتون جج کی عدالت میں بھی پیش ہو گئے تاہم فاضل جج اس وقت کمرۂ عدالت میں موجود نہیں تھیں جس پر عمران خان نے ان کے ریڈر سے کہا کہ وہ فاضل جج کو ان کا پیغام پہنچا دیں کہ عمران خان آپ سے معافی مانگنے آیا تھا۔ گزشتہ روز دوران سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے فاضل وسیع تر بنچ نے عمران خان کے اسی رویے کی بنیاد پر ان کیخلاف توہین عدالت کا کیس ختم کرنے کے احکام صادر کردیئے۔ 
چونکہ توہین عدالت کے کسی مقدمہ میں یہ عدالت ہی کی صوابدید ہوتی ہے کہ وہ ’’کنٹمنر‘‘ کی غیرمشروط معافی قبول کرکے اس کیخلاف کارروائی ختم کر دے یا اسے اپنے دفاع کا موقع فراہم کرے۔ اس تناظر میں عمران خان کو غیرمشروط معافی مانگنے کے تین مواقع دیئے گئے اور ان کا بیان تسلی بخش نہ ہونے کی بنیاد پر ان کیخلاف فردجرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس سے بادی النظر میں انہیں اپنے دفاع کا موقع فراہم کیا گیا۔ اس طرح عمران خان کو فاضل عدالت کی جانب سے غیرمشروط معافی یا کیس میں اپنے دفاع کے دونوں مواقع ملے اور فاضل عدالت نے اپنی صوابدید کے تحت عمران خان کے بیان حلفی اور انکے رویے سے مطمئن ہو کر ان کیخلاف توہین عدالت کا کیس ختم کرنے کا فیصلہ کیا جو عدلیہ کی تاریخ میں بادی النظر میں ایک نئی ’’نظیر‘‘ ہے جبکہ ماضی میں ایک سٹنگ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ میں توہین عدالت کے کیس میں مستوجب سزا ہو کر اپنی وزارت عظمیٰ اور اسمبلی کی رکنیت سے محروم ہونا پڑا تھا۔ اس تناظر میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ عمران خان سے آئندہ کیلئے محتاط رہنے کا متقاضی ہے اور بالخصوص ریاستی اداروں بشمول عدلیہ کے حوالے سے انہیں اپنی تقاریر اور بیانات میں ایسے الفاظ استعمال کرنے سے بہرصورت گریز کرنا چاہیے جس سے اداروں کی توہین کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔ انکے اب تک کے طرز سیاست اور انداز تخاطب میں شائستگی اور رواداری کی جھلک تک نظر نہیں آتی جس سے آگے چل کر ان کیلئے مزید پریشانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ انہیں فاضل عدالت کے نرم رویے کو اپنی اصلاح کیلئے موقع ملنے سے تعبیر کرنا چاہیے۔ 

ای پیپر-دی نیشن