بدھ ، 8ربیع الاول 1444ھ، 5اکتوبر 2022ء
چین پاکستان سے گدھے درآمد کرنے کا خواہاں ہے۔ وزارت تجارت
اس بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتی کہ چین ہمارا واقعی سب سے قابلِ اعتماد دوست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کو گدھوں کے بوجھ سے نجات دلانے کے لیے پاکستانی گدھے درآمد کرنے کا خواہاں ہے۔ اس سے ہماری تجارتی برادری کو بہت فائدہ ہو گا۔ اس لیے ہمیں تاخیر نہیں کرنی چاہیے فوری طور پر وزارت تجارت اس سلسلے میں معاملات طے کرے۔ ہمارے ہاں ویسے بھی گدھوں (صرف جانور کی ورنہ باقی گدھوں کو تو ہم آنکھوں بٹھاتے ہیں) کی قدر نہیں۔ چین میں ان کی بہت قدر ہے۔ وہاں مارکیٹ میں سب سے زیادہ گدھوں کا گوشت سپلائی ہوتا ہے یوں ہمیں چین میں ایک بڑی منڈی مل جائے گی۔ گدھے کی تو کھال کی بھی بہت مانگ ہے۔ یہ مارکیٹ بھی ہمیں مل جائے گی۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ پاکستانی عوام گدھوں کا گوشت کھانے سے بچ جائیں گے جو لالچی منافع خور مافیا یہ حرام گوشت مارکیٹ میں سپلائی کرتا ہے اور ہمارے بدبخت دکان دار اور ہوٹل والے اسے خریدتے ہیں۔ اب یہ کھانے والے کو کہاں معلوم ہوتا ہے کہ یہ دنبہ کڑاھی ہے یا کھوتا کڑاھی۔ یہ مٹن یا بیف تکہ ہے یا خرتکہ۔ اس لیے حکومت عوام کو حرام گوشت کھانے سے بچانے کے لیے فی الفور گدھوں کی چین درآمد کی اجازت دے۔ معاشی طور پر اس میں فائدہ ہی ہے۔ ملک بھر میں کیٹل فارمز کی طرز پہ ڈونکی فارمز کھل سکتے ہیں جن میں اعلیٰ نسل کے فربہ صحت مند گدھے پالے جائیں گے جو چین ہنسی خوشی خرید لے گا۔ چین ہی کیا مشرق بعید کے کئی اور ممالک جن میں ویتنا م ، تھائی لینڈ ، ہانگ کانگ وغیرہ بھی شامل ہیں ہمارے لیے منافع بخش مارکیٹ ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہمیں اس بارے میں فکر نہیں کہ ہمارے ہاں گدھوں کی تعداد کم ہو جائے گی۔ ہم فطری طور پر گدھوں کی افزائش میں خود کفیل ہیں۔ جانور کے علاوہ ہمارے ہاں دوسرے گدھے بھی بے حساب پائے جاتے ہیں یقین نہ ہو تو روزمرہ کے جملوں میں ہی دیکھ لیں ہر ایک دوسرے مخالف کو یا مخاطب کو گدھا کہہ کر خوش ہوتا ہے۔ سکولوں میں تو اساتذہ کو روزانہ ہزاروں گدھوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی گدھے ہمارے ہاں اعلیٰ پوسٹوں پر بھی فائز ہیں۔ اگر ہو سکے تو ان کی درآمد کی بھی کوئی راہ نکالی جائے۔
٭٭٭٭٭
17 سال بعد آنے والی انگلش ٹیم کو ٹرافی دئیے بغیر کیسے بھیجتے۔ رمیز راجہ
کیا خوبصورت سوچ پائی ہے۔ پی سی بی کے چیئرمین نے۔ اگر یہی سوچ دنیا کی باقی کرکٹ ٹیموں کے سربراہوں میں بھی جگہ پائے تو پوری دنیا میں کرکٹ میچ یا سیریز مہمان ٹیمیں جیت کر ہنسی خوشی واپس لوٹیں گی۔ بس اس کا نقصان یہ ہے کہ مقابلے کی جو فضا قائم ہوتی ہے۔ جوش و خروش کا جو سماں بندھتا ہے وہ کہیں نظر نہیں آئے گا۔ ویسے یہ بات بھی تو میچ فکسنگ کی ہی ایک شکل ہو گی۔ کیا معلوم رمیز راجہ نے بھی میچ فکسنگ کا یہ انوکھا فارمولا ایجاد کیا ہو اور اسے روبعمل بھی لائے ہوں۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ خطرناک بات ہے۔ مہمان ہو یامیزبان جب مقابلے پر اترتے ہیں تو پھر ان کی کوشش ہوتی ہے کہ بہترین کھیل کا مظاہرہ کر کے پانسہ اپنے حق میں پلٹ دیں۔ کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ جیت کسی دوسری ٹیم کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کرے۔ اگر یہ تجربہ رمیز راجہ کی سربراہی میں پاکستانی کرکٹ سے کرایا گیا ہے تو یہ ناقابل معافی ہے۔ ویسے بھی ٹی ٹونٹی سیریز کے کئی میچوں میں لگتا تھا کہ ہمارے ماہر کھلاڑی جان بوجھ کر اناڑیوں والا کھیل پیش کر رہے ہیں۔ کہیں اس کے پیچھے یہی ٹرافی تحفے میں پیش کرنے کا فارمولا تو نہیں تھا۔ اب دیکھتے ہیں نیوزی لینڈ جانے والی ٹیم وہاں سے ٹرافی لاتی ہے یا یونہی واپس لوٹ آتی ہے۔ نیوزی لینڈ والوں کو چاہیے کہ وہ بھی رمیز راجہ کے فارمولے پر عمل کریں اور ٹرافی مہمان ٹیموں میں سے کسی کو دے دیں۔
٭٭٭٭٭
سردار اختر مینگل بلوچ طلبہ ہراسگی کیس میں کمشن کے سربراہ مقرر
یہ عدالت کا بہت اچھا فیصلہ ہے جس میں ا یک ایسے شخص کو کمشن کا سربراہ بنایا گیا ہے۔ جس کی ایک اپنی ساکھ ہے اور وہ خود بھی بزرگ بلوچ رہنما ہیں۔ اس طرح کم از کم ان طلبہ کو جو ہراساں کیس میں شریک ہیں یا جنہیں ہراساں کیا گیا ہے سردار اختر مینگل سے بات کرنے اور اپنے مسائل بیان کرنے میں سہولت محسوس کریں گے اور اختر مینگل بھی تحمل و آسانی کے ساتھ ان کے مسائل اور مشکلات کو جان سکیں گے۔ کوئی یہ نہیں کہے گا کہ کسی نے اس کی سُنی نہیں۔ یا مسئلہ سمجھ نہیں آیا۔ کچھ عرصہ سے بلوچ طلبہ کی طرف سے یہ بات کی جا رہی ہے کہ ان کے کچھ ساتھیوں کو بعض عناصر ہراساں کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ ان بلوچ طلبہ کی سیاسی وابستگی بھی ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ ہمارے ہاں قوم پرست سیاست کو پسند نہیں کیا جاتا۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قوم پرست سیاستدان ہوں یا عام شہری وہ سب غلط یا غدار نہیں ہوتے۔ معاملہ مسائل کا ہے جن کو حل کرنا سب سے اہم ہے۔ ہاں اگر کوئی واقعی دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے تو وہ اس کا جوابدہ ہے۔امید ہے سردار اختر مینگل نہایت سنجیدگی اور بردباری سے سارے معاملے کا جائزہ لے کر سب کی سُن کر اپنی جامع رپورٹ تیار کریں گے تاکہ کسی کی طرف سے غلط الزام نہ آئے۔ ویسے بھی بطور قوم پرست رہنما ان پر اکثر بلوچ اعتماد کرتے ہیں۔ وہ ایک مدبر سیاستدان ہیں جن کا بلوچستان میں ہی نہیں ملک بھر میں احترام کیا جاتا ہے۔ ملکی و علاقائی سیاست میں ان کا اپنا نام اور وقار ہے وہ اس مسئلہ کو درست طریقے سے سمجھا سکتے ہیں اور اس کا حل نکالنے میں معاون و مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
سندھ : چھاپوں میں برآمد جان بچانے والی تمام ادویات جعلی نکلیں
اعلیٰ کارکردگی تو یہ ہے کہ یہ چھاپے متواتر مارے جائیں۔ جہاں اطلاع ملے کہ یہاں یہاں جعلی ادویات کو ذخیرہ کیا گیا ہے وہاں چھاپے پڑیں۔مگر ایسا کچھ نہیں لگتا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو سندھ بھر میں بکنے والی ادویات کا تجزیہ کرایا جائے تو معلوم ہو گا کہ اندرون سندھ اور بڑے شہروں میں چند ایک کو چھوڑ کر اکثر میڈیکل سٹورز اس مکروہ دھندے میں ملوث ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ محکمہ صحت والے صرف برآمد شدہ ادویات رکھنے والوں پر تو مقدمات بناتے ہیں مگر جنہوں نے یہ ادویات تیار کی ہیں، ان پر ہاتھ نہیں ڈالتے۔ اب دکاندار خود تو جعلی میڈیسن نہیں بنائے گا۔ منافع خوری کے لالچ میں آ کر جعلی ادویات بنانے والوں سے یہ مال حاصل کرے گا۔ اس لیے اب جو جان بچانے والی جعلی ادویات بناتے ہیں ان کو اور جو یہ ادویات سٹاک کرتے اور فروخت کرتے ہیں ان سب کو نشان عبرت بنا کر ہی اس مکروہ دھندے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ورنہ مقدمہ ہو گا کیس چلے گا بنانے والا اور بیچنے والا چند ماہ پیشیاں بھگتیں گے پھر لوگ اور محکمہ صحت سب بھول بھال جائیں گے اور یہ معاشرے کے ناسور بری ہو جائیں گے یا کیس التوا کا شکار ہو کر بے معنٰی ہو جائے گا۔ انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ ایسے انسانیت دشمن عناصر کو موقع پر کڑی سزا دی جائے جو انسانوں کی جان لینے سے بھی نہیں چوکتے۔ غریب جائیں تو جائیں کہاں۔ انہیں مسیحا سے لے کر دوا تک جعلی ملتی ہے۔ محلے کے ڈسپنسر اور کمپوڈر سے وہ دوا لینے پر علاج کرانے پر مجبور ہیں کیونکہ بھاری فیسیں ادا نہیں کر سکتے۔ سرکاری ہسپتال میں بھی انہیں پوچھتا نہیں وہاں نہ ڈاکٹر ہیں نا ادویات۔ اب جعلی ادویات بنانے والے بھی ان کے جان لینے کے درپے ہو گئے ہیں۔