پہلے آڈیو لیکس کے موجدوں کو ڈھونڈیں
انسان کچھ معاملات سے آنکھیں چراتا ہے مگر اسکی حقیقت سے وہ بخوبی واقف ہوتا ہے اس لئے کہا جاتا ہے عقل مند کو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے اس سچائی سے ہمارے سیاست ناواقف لگتے ہیں یا واقف ہیں مگر اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے وہ کوئی حرف زبان نہیں لاتے اور عوام کو بالکل ہی جاہل سمجھ کر انہیں اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ عام آدمی بھی سچائی کو سمجھتا ہے، اشاروں کو جانتا ہے، مگر عوام کی اکژیت جو اپنی قیادت سے بے پناہ محبت رکھتی ہے، اس کی عقل پر بھی وقتی پردہ پڑ جاتا ہے اور اپنی قیادت کے پیچھے چل پڑتی ہے ۔ جو ملک اور اس کی قیادت آزادی کے 75 سال بعد بھی اپنے اہم راز، ملک کی اہم دستاویز، وزیراعظم ہائوس کی بھی محفوظ نہ رکھ سکے ان سے کیا توقع کی جاسکتی ہے، پانامہ لیکس کے بعد ہر طرف مختلف ’’لیکوں‘‘ کو ہی تذکرہ ہے۔ جب دنیا کو یہ علم ہوگا کہ بلکہ اب تک ہوچکا ہے کہ وزراء اعظم، وزراء سے کسی معاملے پر ہونے بات چیت جواہم ترین ہوتی ہیں۔ کل کسی لیک کے نتیجے میں منظر عام پر آجائینگی تو اس ملک کے غیر محفوظ زعماء سے کون مذاکرات کرے گا یا انہیں سنجیدہ لے گا۔ حال ہی میں موجود وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور وزراء و مریم نوازشریف کی بات چیت جو وزیر اعظم ہائوس میں ہوئی وہ ٹیلیفون کال بمعہ آواز کے منظر عام پر آگئی، حزب اختلاف جو خود کمزور وکٹ پر کھیل رہی ہے، اس نے بغلیں بجائیں مگر یہ خوشی زیادہ دیر نہیں رہ سکی۔ جب سابق وزیر اعظم عمران خان اور انکے کچھ اس وقت کے وزراء کی بات چیت بھی بمعہ آواز منظر عام پرآگئی تو ٹیٹ فارٹیٹ ہوگیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے تو تسلیم کیا اور اسکی انکوائری کا حکم دے دیا مگر عمران خان اپنی مکر جانیوالی عادت و جھوٹ کی عادت کی وجہ سے معاملے کو کسی اور طرف لے گئے یا لے جانا چاہتے ہیں۔ دونوںہی لیک بہت سنگین ہیں وہ کون ہے جو یہ ٹیلیفون بات چیت ریکارڈ کرکے میڈیا تک پہنچا رہا ہے۔ اگر ہماری قیادت محب وطن اور ملکی مفادات عزیز ہوںتو پہلے تو اس شریف انسان یا انسانوں کو تلاش کریں جو وزیر اعظم ہائوس میں ہونے والی اہم یا سازشی بات چیت کو ریکارڈ کرکے منظر عام پر لا رہا ہے۔دونوں جانب سے ایک دوسرے پر الزام تراشی ہی ہورہی ہے۔ لاڈلے سابق وزیراعظم نے اہم دستاویز کھو دی جو وزیراعظم ہائوس کی ملکیت اور ریکارڈ کا حصہ ہوتی ہے وہ گھر لے گئے اور اب فرما رہے ہیں کہ کھو گئی کہیں۔پاکستان میں جب تک انہونیاں ختم نہیں ہونگی، چار موسموںکا حامل، یہ ایٹمی طاقت کبھی اپنے ڈگر پر نہیں چل سکے گا۔ قائد کی عظیم مملکت جو جمہوریت کے نام پر قائم ہوئی، وہ کیا جمہوریت جس میں جمہور کی رائے کا کوئی دخل نہ ہو، عدالتی نظام میں کو لے لیں اگر الیکشن کمیشن کے اندرجات میں کوئی اپنے بیٹے سے انتظام کے تحت اور اقامہ قوانین کی خاطر کاغذات میں تنخواہ کا اندراج نہ کرے وہ ہمیشہ کیلئے نااہل، اور کوئی توشہ خانہ سے لی جانے اشیاء اور زمین کو اندارج نہ کرے تو وہ اسکی بھول کہہ کر معاف کردیا جائے، عدالتوں، ججوں کیخلاف قابل اعتراض بات کرنے پر کسی کی سیاست سے نااہل اور کسی کو بار بار تیار کیا جائے ’’تم ایسا کرلو تو ہم تمہیں چھوڑ دینگے، اور چھوڑ دیا جائے کہ تم عوام کے مقبول رہنما ہو۔ یہ کونسا قانون ہے۔ یہ حال مسلم لیگیوںکا ہے جب حزب اختلاف میں تھے مقدمات لایئے گئے، حکومت آئی تو انہیں عدالتوںسے ریلیف ملنا شروع ہوگیا ، یہ ہی پنجاب میں بھی ہورہا ہے باپ وزیر اعلیٰ تو بیٹے پر قائم مقدمات ختم۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ فیصلہ کے نتیجے میں پھر مقبولیت آڑے نہیں آتی، ذولفقار علی بھٹو شہید مقبول ترین رہنماء تھے وہ جیل گئے، تقسیم شدہ عدالت کا فیصلہ ہوا اور پھانسی ہوگئی جس عوام میں وہ مقبول تھے وہ عوام پھر سڑکوں پر نظر نہیں آئی پھانسی کے بعد بھی، نواز شریف کم از کم پنجاب کے مقبول ترین رہنما تھے ملک بدر ہوئے یا بھیج دئیے گئے کوئی سڑک پر نظر نہیں آیا، جب میاں نواز شریف جدہ میںملک بدری گزار رہے تھے۔ اس وقت کے آمر پرویز مشرف کا پیغام آیا کہ نواز شریف منظور نہیں وہ لندن جائیں برگر کھائیں، دوسری قیادت کو آگے لائیں وہ تسلیم کر لیں گے، مگر وہ بھی ملک آئے ’’حالات سازگار‘‘ہونے پر اور پھر وزیراعظم بن گئے، چند سال بعد چلتی پھرتی حکومت چلتی کردی گئی ملک سے باہر بھیج دئیے گئے، یہ سب تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی لانگ مارچ کا خیال عمران خان بھی ذہن سے نکال دیں چونکہ اگر کاغذوں میں وہ نہیں ہیں تو پھر وہ گرفتار بھی ہونگے، جس عوام کا وہ ذکر کرتے ہیں وہ ان کیلئے سڑکوںپر نہ ہونگے، انکی جماعت میں انکے دائیں بائیںانتظار میں ہیں قیادت سنبھالنے کے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران عمران خان کو معاملات بہتر کرنے کا موقع ملا ہو لیکن انہوں نے مفاہمتی راستہ اختیار کرنے اور اپنی مقبولیت کا بہتر استعمال کرنے کا موقع ضائع کیا۔عمران خان کی سیاست نے اب جمہور پاکستان کو تقسیم در تقسیم کردیا ہے جہاں اب پاکستان میں کسی سنگل جماعت کی حکومت بننا ایک خواب سے کم نہیں۔ صدر پاکستان بھی پاکستان کا صدر بننے کے بجائے تاحال پی ٹی آئی رہنماء ہیں جو اس منصب کیلئے بہتر نہیں۔ وہ صدارتی عہدہ پر ہونے کے باوجود آرمی چیف کی تعیناتی کے سلسلے میںاپنی پارٹی چیئرمین کے شانہ بشانہ ہیں جو اس منصب کے خلاف ہے۔