منفردشاعر
ممتاز شاعر فرحت عباس شاہ شاعری کی دنیا میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ ملن سار اورادب دوست اس شاعر کو ادبی حلقوںمیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ ان کو پرائیڈ آف پرفارمنس ملنے پر جہاں پہ ادبی دوستوں نے دلی مبارکباد پیش کی وہاں پرسیوا پبلشرکی طرف سے بھی خصوصی مبارکباد پیش کی گئی۔ لکھتے ہیں کہ انہوں نے اردو اور انگریزی لٹریچر کے علاوہ فلسفہ اور نفسیات میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ پولیٹیکل اکانومی سمیت عالمی معیشت اور دنیا کے معاشی نظاموں پر بہت کام کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامک اکنامکس کے ماہر کے طور پر دنیا کے معاشی ماہرین کے حلقوں میں بہت شہرت حاصل کی۔ اردو اور پنجابی میں بہت کلام تخلیق کیا۔ ان کی شاعری میں موضوعات کی وسعت اور کیفیات کے اظہار کی ایسی تخلیقی قوت واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔ فرحت عباس شاہ نے نہ صرف معاشی بے انصافی پر قلم اٹھایا بلکہ دنیا کا پہلا اسلامک مائیکروفنانس ماڈل بنا کے اس کو عملی طور پر ثابت بھی کیا۔ فرحت عباس شاہ نے ٹرکل ڈاون اکنامک تھیوری کو رد کرکے ٹوئیسٹ اپ اکانومی تھیوری پیش کی اور ہزاروں خاندانوں کو معاشی خود انحصاری کے پروگرام کے تحت اپنے پاوں پر کھڑا کیا۔ فرحت عباس شاہ نے فلسفہ، نفسیات، موسیقی، ادب، صحافت ، معیشت اور مارشل آرٹ جیسے شعبوں میں اپنی حیثیت نہ صرف منوائی بلکہ قبول عام کی سند حاصل کی۔ انہوں نے ہمیشہ، عالمی امن، محبت اور انسانیت کے نظریات کی سربلندی کو فوقیت دی۔ فرحت عباس شاہ نے اسلامک اکنامکس کی بنیاد پر ٹوئیسٹ اپ اکانومی تھیوری پیش کی اور دنیا کا پہلا اسلامک مٰائیکرو فائنانس ماڈل ڈیزائن کیا جسے فرض اسلامک مائیکروفائنانس ماڈل کے طور پر دنیا بھر کے مائیکر فائنانس حلقوں میں شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ آکسفورڈ مائیکرو فائنانس انیشئیٹو ڈپارٹمینٹ کے ریسرچ سکالرز نے اس پر تھیسیز کیا اور دنیا سے غربت کے خاتمے کے لیے تھیوری کو مفید اور اہم قرار دیا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین نے فرحت عباس شاہ کی اکنامک تھیوری اور مائیکرو فائنانس ماڈل کو وقت اور ورلڈ اکنامک سسٹم کی ضرورت قرار دیا۔ فرحت عباس شاہ کی اب تک 70 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ جن میں World Economic Crisis , Analysis and Resolve شامل ہے۔ انکے موضوعات ہیں ادب، صحافت، فلسفہ، سوشلزم، تنقید، نفسیات، موسیقی، اکنامکس، پولیٹیکل اکانومی۔ پیدائش اور ابتدائی تعلیم، فرحت عباس شاہ 15 نومبر 1964ء کو جھنگ صدر پنجاب میں پیدا ہوئے۔ فرحت عباس شاہ نے ابتدائی تعلیم جھنگ میں ہی حاصل کی۔ جھنگ میں ہی ایم ایس سی نفسیات کی ڈگری حاصل کی۔ مزید اعلیٰ تعلیم کے واسطے لاہور چلے آئے۔ 1988ء تا 1990ء میں جامعہ پنجاب، لاہور سے فلسفہ میں ایم اے کی تعلیم حاصل کی اور اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے ایم اے انگلش لٹریچر کی تعلیم حاصل کی۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے علاوہ دو درجن سے زیادہ ملکی و غیرملکی آرگنائزیشن سے مارکیٹنگ، فائنانس اور اکنامکس میں پروفیشنل سرٹیفکیٹس حاصل کیے۔بحیثیت مارشل آرٹسٹ فرحت عباس شاہ قومی سطح پر تسلیم کیے جانیوالے مارشل آرٹسٹ ہیں۔ وہ بحیثیت مارشل آرٹسٹ کے ’’پاکستانی نِنجا‘‘ کے طور پر بھی پہچانے جاتے ہیں۔امن و آشتی کے علمبردار فرحت عباس شاہ نے عالمی طور پر مارشل آرٹ کی تعلیم میں بردباری، امن وسکون، خود اعتمادی اور امدادی افکار جیسی بنیادی قواعدی اصولیات کو متعارف کروایا جس کی وجہ سے وہ مارشل آرٹ میں امن و آشتی کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں۔بحیثیت شاعر و ادیب فرحت عباس شاہ نے 13 سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کیے جو اختر انصاری اکبر آبادی کی زیر اشاعت حیدرآباد سے شائع ہونے والی جریدے ’’نئی صدی (1978ئ) اور نیرنگ خیال (1977ئ) سمیت‘‘ مختلف اخبارات جرائد میں شائع ہوئے۔ فرحت عباس شاہ کا پہلا شعری مجموعہ ’’شام کے بعد‘‘ 25 جون 1989ء میں منظر عام پر آیا جس سے اْن کی شہرت میں روز افزوں اضافہ ہوتا گیا، تاحال اِس شعری مجموعہ کے 30 سالوں میں 200 سے زائد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ یہ کتاب رومانوی اور معاشرتی گھٹن کے احساسات کے اظہار پر مشتمل غزلوں، نظموں کا مجموعہ ہے۔ تقریباً 32 سالوں میں فرحت عباس شاہ کے قلم سے 70 کتب منظر عام پر آئیں جن میں 50 کتب صرف شاعری کی ہیں اور 3 کتب تنقید کی شائع ہوئیں۔ 40 سال کی عمر تک اْن کے 46 شعری مجموعہ جات شائع ہوچکے تھے۔ اکیسویں صدی عیسوی کے ابتدائی سالوں میں وہ رومانوی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ فلسفیانہ فکر کے حامل شاعر کے طور پر مقبول عام ہوئے اور جنگ مخالف شاعر بھی خیال کیے جانے لگے۔ 2001ء میں امریکا کے افغانستان پر حملہ کے حوالے سے جنگ مخالف شاعری کے مجموعے ’’ہم اکیلے ہیں بہت‘‘ کی تخلیق و اشاعت سے فرحت عباس شاہ ایک عظیم نظریاتی شاعر کی حیثیت سے مانے جانے لگے۔ 2003ء کے بعد انہوں نے اپنی توجہ دنیاسے غربت کے خاتمے کی سوچ اور نظریہ سازی پر مرکوز کردی۔