خیر البشر
تاریخ کے دھارے میں واعظ ، معلم ، آتش بیاں خطیب اور طرح طرح کے مصلحین دکھائی دیتے ہیں۔ فلسفہ طرازوں کی موشگافیوں اور انبوہ حکمرانوں سے ایسا دائمی انقلاب ممکن نہ ہو سکا جو انسان کو فلاح کے لیے مکمل تبدیل کر دے۔ اس مقصد اور ابدی پیغام کی ترویج و تکمیل کے لیے اللہ نے اپنے محبوب کو منتخب کیا۔ماہر القادری کے الفاظ میں
تو مقصد تخلیق ہے ، تو حاصل ایماں
جو تجھ سے گریزاں ، وہ خدا سے ہے گریزاں
سرکار رحمت اللعالمین محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے محبوب ، شافع محشر۔ اور ہم سے پتھر القاب و تخاطب کے انتخاب سے نا واقف ، صرف عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و بیعت کے خواہش مند۔ محبت نہ کریں تو کہاں جائیں ؟اور یہ محبت خالص بنیادوں پر ہی ممکن ہے۔ مذہبی تاجر ہر دور میں تجارت کے باٹ لیے انسانیت کا تول گھٹانے میں نہ صرف مصروف عمل رہے ہیں بلکہ آج بھی ملائیت ایک شان کے ساتھ اذہان کو ایک خاص سانچے میں ڈھال کر سیاست کے طبلہ پر نچا رہی ہے۔معاشرے میں انسانی حقوق کے احترام اور تحفظ کا جو عملی نمونہ محبوب خدا رسول اللہ ؐنے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، دنیا کا کوئی اور نظام اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔اسلام میں حقوق کا تصور کیا ہے؟ حضرت سلمان فارسیؓ نے ایک موقع پر اپنے میزبان سے فرمایا کہ تیرے رب کے تجھ پر حق ہیں، تمہارے نفس کا تجھ پر حق ہے، تمہاری بیوی کا تجھ پر حق ہے، آنے جانے والے مہمانوں کا بھی تجھ پر حق ہے، پس ہر حق والے کو اس کا حق ادا کرو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب حضرت سلمان فارسیؓ کی اس بات کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا ’’صدق سلمان‘‘ کہ سلمان نے جو کہا، سچ کہا۔ چنانچہ اسلام میں حقوق کا بنیادی تصور حضرت سلمان فارسیؓ کا یہ جملہ ہے کہ ہر حقدار کو اس کا حق ادا کرو۔ الوہیت کے حقوق انسانی طاقتوں نے آپس میں بانٹ رکھے تھے ،ایسے میں حقوق انسان کی پاس داری کی ارفع مثال سیرت رسول ؐ سے بہتر تو کیا ، ان سا بھی ممکن نہیں۔ حضور کا کلمہ ء پیغام حد درجہ انقلابی کلمہ تھا۔ لا الہ الا اللہ۔ لفظی پہلو سے انتہائی مختصر ، معنوی اعتبار سے انتہائی عمیق۔ ۔
رسول اللہؐ نے رنگ و نسل کے امتیاز کو صرف زبان سے ہی نہیں ختم کیا بلکہ عمل سے بھی ختم کیا اور مساوات کا ایک جامع اور مکمل نمونہ پیش کیا۔
انسانی حقوق کے حوالے سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ معاشرے میں جان، مال اور آبرو کا تحفظ انسان کا بنیادی حق ہے۔ حجتہ الوداع کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ تمہاری جانیں، تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں، تم پر (آپس میں) اسی طرح حرام ہیں جیسے اس دن اور اس مہینے میں تمہارے اس شہر کی حرمت ہے۔ بخاری کی ایک اور روایت میں ’’وابشارکم‘‘ کا لفظ بھی ہے کہ تمہارے چمڑے بھی ایک دوسرے پر حرام ہیں کہ کوئی شخص کسی دوسرے پر ہاتھ نہ اٹھائے۔
رائے کی آزادی ہو، جان کا تحفظ ہو، مال کا تحفظ ہو، آبرو کا تحفظ ہو، گھریلو زندگی کا تحفظ ہو، عورتوں کے حقوق ہوں، غلاموں کے حقوق ہوں، رشتہ داروں کے حقوق ہوں، اپنا حق مانگنے کا شعور ہو، یہ معاملات محبوب خدا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی سکھائے ہیں اور آج کی نسل انسانی اپنے تمام تر دعوؤں اور ترقی کے باوجود اس مقام تک نہیں پہنچ سکی جو آئیڈیل دور ہے اور وہی مثالی اجتماعی سوسائٹی ہے جس کی بنیاد حقوق اللہ اور حقوق العباد پر قائم کی گئی ہے۔ رسول اللہؐ نے ایسی گفتگو کو گناہِ عظیم بتایا ہے جس سے کسی کی بے عزتی کا پہلو سامنے آتا ہو۔ جو شخص کسی پر بدکاری کی تہمت لگائے وہ سزا کا مستحق ہے کہ اس نے کسی دوسرے کی عزت پر ہاتھ ڈالا ہے- اسی طرح قرآن نے غیبت سے منع فرمایا اور کوئی کسی کی غیبت نہ کیا کرے، کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس کو ناپسند کرتے ہو۔اور ہماری سیاسی ، معاشرتی اور اجتماعی شعبدہ بازی قائم ہی مذکورہ رذائل پر ہے۔ قران اور محمدؐ دونوں ایک ہی مشن رکھتے ہیں اور اس کا مقصود سیرت رسول ؐاور فہم قرآن سے مشروط ہے۔ دین کی روح تک رسائی محض قرانی عبارات یا کچھ واقعات جان لینے سے ممکن نہیں بلکہ قران اور سیرت رسولؐ کی برکات کو سمیٹنے کے لیے اس منہاج تک پہنچنا ضروری ہے جو بیک وقت قران اور سیرت کا مدعا ہے اور جس کا نتیجہ فہم دین بھی ہے ، ہدایت بھی اور تکریم انسانیت بھی۔اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کو بلند کیا ہے اور اتنا بلند کہ ہماری نسلیں چودہ سو چوالیس سال واپسی کا سفر طے کر کہ ان کی ایک جھلک تک بھی نہیں دیکھ سکتے۔ یہ عشق تو توفیق ہے۔عاجزی و انکساری اور اپنی بے مائیگی کے اعتراف کی توفیق۔ ابدی حقیقت یہ ہی ہے کہ اسلام کا صحیح فہم علم انسان کو صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے کہ وہ قران کو نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قران سے سمجھنے کی کوشش کرے۔
محمد ؐ کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو ایماں نا مکمل ہے