نایاب ہیں ہم
باادب با نصیب ، بے ادب بے نصیب۔ یہ الفاظ نرسری کلاس سے ہرروزدوران اسمبلی یاد کروائے جاتے تھے۔ یہ الفاظ نہ صرف دل ودماغ میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نقش ہوکر رہ گئے بلکہ تاحیات عملی زندگی میں بھی ان پر عمل کرنے کی کاوش جاری رہی۔ ہائی سکول سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی کا سفر طے ہوا۔پروفیشنل لائف نے پروفیشن کی تعظیم اور معنی سمجھائے، لیکن جب جب اور جہاں جہاں اپنے کسی استاد سے سامنا ہوا نظریں جھکیں اور دل محبت واحترام سے بھرگیا۔آج بھی کبھی کہیں کسی استاد سے سامناہوجائے تو ایک جھجھک،شرم اور تعظیم سے دل بھر جاتا ہے۔ بچپن کی بہت سی یادیں ساری عمر ہمارے ذہن کے گوشوں میں تروتازہ اور زندہ رہتی ہیں۔ گڑیا سے کھیلنا،دوستیاں، مختلف شرارتیں اور کھیل آپ کو رہ رہ کر یاد آتے ہیں انہی بے شمار یادوں میں سے ایک اساتذہ کے چہرے ، انکے پیار اور رویے کا یادرہ جانا بھی ہے۔ زندگی بھر آپ کو اپنے استاد نہیں بھولتے، میں شاید کلاس دوئم میں تھی جب ہمارے استاد محمد افضل صاحب(جو ہمارے سکول کے مالک بھی تھے لیکن باقاعدگی سے ہر کلاس کو پڑھاتے بھی تھے) نے ہر بچے پر مختلف اشعار اور نظمیں تیار کی ہوئی تھیں جو ہمیں دیکھتے ہی اکثر پڑھا کرتے۔ مجھے آج بھی ان کے الفاظ یاد ہیں۔
لبنیٰ صفدر۔ چلو دفتر۔ پڑھو چٹھیاں۔ بنو افسر
اللہ پاک انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمین۔ جب کبھی کہیں ملے تو شفقت سے سرپر ہاتھ رکھ کردْعا دی۔ میں نے زندگی میں سیکھنے کا عمل انہی کے زیر سایہ آغاز کیا۔ وہ ان کاہمارے علاقے میں پہلے انگلش میڈیم سکول کے قیام کا تجربہ تھا جس پر انہوں نے بے پناہ محنت کی۔ پہلا انگلش میڈیم سکول ہونے کی وجہ سے ہماری والدہ محترمہ ہمیں اٹھا کر پونے تین سال کی عمر میں ہی سکول داخل کروا آئیں۔ سکول ہمارے گھر سے زیادہ دور بھی نہیں تھا لہذا دو وقت امی کوئی چیز کھانے کیلئے لے کر آتی تھیں۔ سرافضل بالکل مائوں کی طرح پیار سے کھلایا کرتے۔ یونیورسٹی میں ایم فل کرنے پہنچ گئی۔ استاد محترم سے فون پر بات ہوئی کہنے لگے کہ آج تو ایم فل کے داخلے کی آخری تاریخ ہے۔ ساتھ ہی سوال کر ڈالا کبھی کوئی کالم کوئی مضمون، کوئی تحریر کہیں چھپی ہے آپکی۔ دل ایک دم خوشی سے کھل اٹھا، سر میری شاعری کی چھ کتب شائع ہوچکی ہیں۔ آپ بس جلدی یونیورسٹی پہنچ جائیں آپ کا داخلہ ہوجائیگا۔ یہ منہاج القرآن شعبہ اردو کے نہایت قابل اورمعتبر مختار عزمی صاحب تھے۔ خیر اگلے دن یونیورسٹی پہنچی، نہ صرف داخلہ ہوگیا بلکہ مختار عزمی صاحب نے ناچیز کومزید عزت بخشی اور کلاس کا سی آر بھی بنا دیا۔ بس پھر دو سال کا یادگار عرصہ منہاج القرآن یونیورسٹی سے وابستہ ہے۔ استاد کو معمار کہا جاتا ہے کہ اگر معمار ایک اینٹ ٹیڑھی رکھے تو آسمان تک عمارت ٹیڑھی ہی کھڑی ہوگی۔استاد کے ہاتھ میں بچے کے مستقبل کی کنجی ہوتی ہے۔ مجھے کچھ دن سے سوشل میڈیا پر لوگوں کے خیالات جان کرا افسوس بھی ہورہا ہے۔ جس میں انہوں نے شکایت کی ہے کہ انکے اساتذہ انہیں نہایت سخت سزائیں دیا کرتے تھے اور تشدد کی حد تک مار پڑتی تھی۔ آج کے طالبعلم خوش قسمت ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس وقت درختوں کے نیچے بیٹھ کر بھی اساتذہ نے ہی پڑھایا سکول کے اوقات سے زیادہ وقت دے کر امتحانات کی تیاری بھی کروائی۔ لوگ انہی ٹاٹوں پر بیٹھ کر پڑھے اور مستقبل میں اعلیٰ عہدوں پر پہنچے۔ کیا یہ کسی استاد کی محنت کے بغیر ممکن تھا، ہرگز نہیں۔ میرا ماننا ہے کہ جیسے تمام اولاد ایک جیسی نہیں ہوتی۔ تمام والدین بھی ایک جیسی محبت نہیں بانٹ سکتے۔ اساتذہ کے معاملے میں بھی ذاتی تجربات کی نوعیت مختلف ہوسکتی ہے لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اساتذہ نے صرف مار پیٹ سے ہی کام لیا تھا۔ ایک دفعہ ایک آفیسر جو اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں بتا رہے تھے کہ میں جب اس سیٹ پر پہنچنے کے قابل ہوا تو اپنی شاندار سرکاری گاڑی میں اپنے گائوں گیا۔ راستے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نہایت کمزور اور نحیف شخص مشکل سے سائیکل چلاتا جارہا ہے۔ گائوں کے کچے راستے کی وجہ سے میری گاڑی کے گزرنے پر اٹھنے والی دھول میں ان کو پہچان نہ سکا۔ جب رفتار کم کی تو معلوم ہوا کہ وہ میرے استاد محترم ہیں میں نے گاڑی وہیں روک دی اْتر کر انکے ہاتھ چومے ، سلام کیا اور ان کو گاڑی میں بٹھا کر گھر تک چھوڑ آیا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ میری گاڑی سے اٹھنے والی گرد میرے استاد محترم تک پہنچے۔ اسے عقیدت واحترام کہتے ہیں ماں کے بعد تربیت کا سب سے بڑا مرکز استاد کی گود ہے۔ استاد کی عظمت کے بارے میں بیان کرنا چاہو تو الفاظ کم پڑجاتے ہیں۔جو کوئی بھی کسی بڑے سے بڑے سرکاری عہدے پر فائز ہو اسکے پیچھے ایک استاد کی محنت ہوتی ہے۔ مجھے اشفاق احمدصاحب کی ایک بات ہمیشہ یاد رہتی ہے، کہتے ہیں کہ وہ اٹلی میں تھے تو ان سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی ہوگئی۔ ایک دن کورٹ کی طرف سے پیشی کا نوٹس آگیا ۔کہتے ہیں میں مقررہ تاریخ پر کورٹ پہنچ گیا۔ جج صاحب نے دیگر سوالات شروع کرنے سے قبل پوچھا آپ کیا کرتے ہیں۔ میں نے کہا جناب میں ایک استاد ہوں۔ یہ سنتے ہی جج کرسی سے کھڑا ہوگیا اور بلند آواز میں کہا۔ ٹیچر ان کورٹ۔یہ سنتے ہی وہاں بیٹھا ہر شخص کھڑا ہوگیا۔ جج صاحب نے کرسی منگوائی اور مجھے اپنے ساتھ بٹھایا۔ اللہ تعالی ہمیں بہترین اساتذہ بننے اور اپنی آئندہ اور موجودہ نسلوں کی اچھی تعلیم و تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔