بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون ؟
پاکستان ایک مشکل ملک ہے اور اگر آپ کا ذریعہ معاش کاروبار ہے اور آپ اسے پوری ایمانداری سے مروجہ ’’لین دین‘‘ سے ہٹ کر‘ کرنا چاہتے ہیں تو پھرآپ شدید مشکل میں ہیں۔ برسوں پہلے پی ٹی وی پر ایک پروگرام ’’میں اور آپ‘‘ کے نام سے سلیم طاہر کیا کرتے تھے۔ جس میں پاکستان میں زندگی بسر کرنے کے چند زریں اصول بتائے گئے تھے۔ راہ چلتے ایک شخص نے کہا کہ پاکستان میں رہنے کا سب سے آسان فارمولہ ہے۔
’’انگریزی والے ’’The ‘‘کو پنجابی والا ’’دا‘‘ سمجھ لیں۔ یہ
جتھے لگے اوتھے لا‘‘
ایک اور پروگرام میں شریک گفتگو شخص نے کہا کہ یہ لوگ جو کنالوں پر محیط ( اب ایکڑوں کے) گھروں میں رہتے ہیں یہ اپنی آمدن اور ٹیکس کا پورا حساب ایمانداری سے دے دیں اس کے بعد گھر کا ایک واش روم بنا کر دکھائیں۔
ویسے بھی ایک انگریزی محاورہ ہے جو اب تقریباً ضرب المثل بن چکا ہے کہ
"Behind every great fortune There is a crime"
لفظی مطلب تو کچھ یوں ہے کہ ہر بڑی خوش قسمتی کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے لیکن آسان زبان میں سمجھ لیں کہ اکثر بڑی کامیابیوں اور ضرورت سے زیادہ پیسے کے پیچھے کوئی قانون شکنی موجود ہوتی ہے۔
ان حالات میں عمومی طور پر پاکستانی بزنس مین ٹیکس ایڈوائزر اور وکلاء کی ٹیم رکھتے ہیں جن کا بنیادی مقصد ہمیشہ ٹیکس ’’بچانا‘‘ ہی ہوتا ہے۔ ایسے میں بڑی خوشگوار حیرت ہوئی جب گزشتہ دنوں بزنس مینوں اور کاروباری شخصیات کی ایک تقریب میں شرکت کا موقع ملا اور پتہ چلا کہ چند سو ایسے کاروباری افراد بھی ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ ٹیکس پورا اور زیادہ دینے سے ان کی ذاتی ترقی میں ملک اور پاکستان کے عوام بھی حصہ دار بن سکتے ہیں۔
یہ تقریب ایک کاروباری تنظیم ’’ففتھ پلر‘‘ نے سجائی تھی جس کا بنیادی مقصد ریاست کے چوتھے ستون کو ساتھ ملا کر ریاست کے بنیادی تین ستونوں کو اس کام پر آمادہ کرنا تھا کہ وہ بزنس کمیونٹی سے مشاورت کے ساتھ ایسا طریقہ کار وضع کریں جس میں آسان قوانین کے ذریعے ٹیکس کے معاملات میں افسر شاہی کی رکاوٹیں ہٹا کر پاکستان کی تعمیر وترقی ممکن بناسکیں۔ تنظیم کے روح رواں عابد بٹ اور علی ملک نے یہ بتا کر دل خوش کر دیا کہ وہ ہر سال ‘ پچھلے سال کی نسبت طے شدہ شرح سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ بشرطیکہ حکومت تجارتی اور کاروباری پالیسیاں مرتب کرتے وقت متعلقہ کاروبار سے منسلک افراد کی رائے کو اہمیت دیتے ہوئے اپنی مستقبل کی حکمت عملی ترتیب دیں۔
ذرا سوچیئے کہ اس افراتفری کے دور میں جب ہر آدمی پیسے کمانے ‘ بچانے اور چھپانے کی دوڑ میں شامل ہے‘ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی ذاتی آمدن اور مفاد سے بالاتر ہو کر فکس اضافہ شدہ شرح سے حکومتی خزانے میں ٹیکس جمع کرانے کو تیار ہیں۔ یہ احساس کتنا خوشگوار ہے!
ففتھ پلر تنظیم سے وابستہ ان لوگوں کی گفتگو سننے کے دوران میں حیرت سے سوچتا رہا کہ یہ کون لوگ ہیں جو اپنے بچائے جاسکتے پیسے حکومت کو دینے پر آمادہ ہیں۔ خیال یہی آتا ہے کہ ان کا تعلق پاکستان سے تو نہیں ہوسکتا؟ ابتدائی گفتگو کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ پڑھے لکھے تعلیم یافتہ لوگ ہیں جن کے پاکستان سے باہر بھی کاروبار ہیں اور انہیں ترقی یافتہ ممالک کے ٹیکس کلچر کا علم ہے اور اس کے فوائد سے بھی کماحقہ ہو آگاہی ہے۔
گفتگو سے صاف ظاہر تھا کہ عابد بٹ‘ علی ملک اور ان کے ساتھ شریک اس تنظیم میں دیگر لوگ اپنے دلوں میں یہ خواہش پالے ہوئے ہیں کہ انہیں اور ان کے وطن میں بسنے والے تمام لوگوں کو وہ سب کچھ ملے جو اس خطہ زمین سے باہر ایک معمول کی بات ہے۔ ان کے دل میں کچھ کرنے کا جذبہ اتنے شباب پر تھا کہ جذبات آنکھوں کے راستے چھلک رہے تھے۔
ترقی یافتہ معاشروں کی بنیاد محروم طبقات کا معیار زندگی بہتر بنانے کی خواہش پر استوار ہے اور اسی جذبے کے تحت اجتماعی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر بھی ہوسکتا ہے لیکن میں دیر تک سوچتا رہا آخر اس بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون؟