حیرت میں گُم ہوتی زندگی
آزادی سے قبل برصغیرمیں چھے سو سے زیادہ چھوٹی بڑی ریاستیں تھیں۔ان کے نوابین کے باہمی روابط ان کے ذوق کی آبیاری کے لیے مہمیز کا کام دیتے تھے۔ا ن کی شبینہ روز ملاقاتوں میں شہزادے شہزادیوں کے وصالیے کی افیون آمیزداستانوں کے ساتھ ساتھ لذت کام ودہن کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا،ان دنوںلاہور کے ایک چودھری صاحب کے دہلی کے نواب صاحب سے گہرے مراسم تھے۔ ہرسال سردیوں میں چودھری صاحب دہلی جاتے اور گرمیوں میں نواب صاحب پنجاب تشریف لاتے۔ایک سال جب چودھری صاحب دہلی میں نواب صاحب کے ہاں براجمان تھے ،ایک صبح ناشتے کے وقت نواب صاحب نے اپنے ایک پرانے ملازم کو بلایا اوراور کہا،شبراتی میاں!ہمارا جی چاہتا ہے کہ آج کھانے میں چاندنی چوک کی مشہور نہاری بھی ہو،ابھی جائیں اور لے آئیں،ملازم کے روانہ ہونے کے بعدنواب صاحب نے چودھری صاحب سے کہا ،حضور!ملاحظہ فرمائیے گا،ہمارے خاندانی ملازم کی ہمارے ساتھ کیسی مزاج آشنائی ہے،بالکل مشین کی طرح کام کرتا ہے،لیں چودھری صاحب !شبراتی میاں اب جارہے ہیں،لیں جی اب وہ آدھا راستہ طے کرچکے،اب انھوں نے نہاری مول لے لی،اب واپس آرہے ہیں،لیں جی اب وہ گھر کے قریب آن پہنچے،اب ہمارے بالا خانے کے زینے طے کررہے ہیں،اب شبراتی میاں نہاری لے کر پہنچ گئے۔اس کے ساتھ ہی نواب صاحب نے آواز دی شبراتی میاں! جی حضور، میںحاضر،لے آئے نہاری؟جی سرکار۔ چودھری صاحب اس واقعے سے بہت متاثر ہوئے۔انھو ں نے سوچاجب نواب صاحب ان کے ہاں آئیں گے تو وہ بھی کوئی ایسا ہی کرشمہ دکھا کر انہیں حیران کردیں گے۔آخرہم کسی سے کم تو نہیں ہیں۔جب وقت آیا اور نواب صاحب اپنے مصاحبین کے ہمراہ چودھری صاحب کے ہاں تشریف لائے،ایک شام چودھری صاحب نے اپنے قدیم ملازم کو آواز دی،اوئے گامو!!!گامو حاضرہوگیا،آج کھانے میںلاہوری ہریسہ ہو تو جی خوش ہوجائے،جائو بازار سے لے آئو،جی جناب!،نواب صاحب !گامو ہمارا جدی پشتی وفادار نوکرہے ۔دیکھیں جی اس کا کمال ۔لیں جی اب وہ ہریسہ لینے جارہا ہے،اب دکان پرپہنچ گیا ہے،اب اس کی واپسی کا سفرشروع ہوا، لیںجی اب قریب آن پہنچا۔اوے گامو!جی چودھری صاحب! ہریسہ لے آئے؟ چودھری صاحب میری توجوتی ہی نہیں مل رہی،ملتی ہے تو ابھی لے کر آتاہوں جی آپ کا ہریسہ۔نواب صاحب اور چودھری صاحب کی انتظامی مہارت اپنی جگہ ،آج کا کالم لکھتے ہوئے ہم شرمندہ ہیں کہ یہ تمہیدی کہانی ذرا طویل ہوگئی ،ہم اسے بھلا چکے تھے لیکن آج کل یکے بعد دیگرے اس نوعیت کے واقعات پیش آرہے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم والی صورت حال ہے۔
چندروزپہلے صبح کے وقت خاتون خانہ کی آنکھ ذرا دیرسے کھلی،چولہا جلانے لگیں تو گیس نہ دارد،بے بسی کے عالم میں پریشان ہوکربیٹھ گئیں،ہمارے چھوٹے صاحب زادے ماں سے گویا ہوئے ’’یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں،اسی وقت ہمارا فون لے کرآن لائن خورونوش کاسامان آرڈر کردیا،اور دہلی کے نواب صاحب کی طرح اپنی والدہ کو بتانے لگے،یہ لیں اب ڈیلیوری بوائے نے سامان دکان سے لے لیا ہے،اب وہ آدھا راستہ طے کرچکا ہے،اب وہ ہماری سوسائٹی میں داخل ہورہا ہے،لیجیے اب ہمارے گھر کے قریب آن پہنچا ہے،اس کے ساتھ ہی فون کی گھنٹی بجی،لیں صاحب سامان حاضر۔یہ ادا ایسی پسندآئی کہ اب گھریلواستعمال کا سازوسامان، ادویات،کپڑے جوتے اورکتابوں وغیرہ کی خریداری کے معاملے میں ہمارا زیادہ ترانحصاراسی طرح کی آن لائن سروس پرہے۔
ہم لوئر مڈل کلاس کی مخصوص سماجی شرم وحیا کے مارے لوگ رہن سہن اور معیار زندگی کے لحاظ سے دہلی کے نواب صاحب کے ہم پلہ ہوگئے ہیں،جدید ٹیکنالوجی نے توہماری زندگی میںآسائشیں لاکرکمال ہی کردیاہے،اگراس کے زیراثر نت نئی ایجادات کرنے والے لوگ کافرنہ ہوتے تو الحمدللہ ہم کب کے ان کے ہاتھ پربیعت کرچکے ہوتے،انسا نی زندگی میں سہولتوں کا ایک سیلاب آگیاہے،گزشتہ ایک صدی میں ہونے والی ایجادات نے انسانی زندگی میں عیش وآرام کے وافرسامان مہیا کیے ہیں ، انسانی زندگی میں جوآسانیاں در آئی ہیں اس پر انگشت بدنداں ہونا کوئی حیرت یا اچنبھے کی بات نہیں۔ساتھ ساتھ آن لائن چوراورڈاکو بھی پیدا ہوگئے ہیں۔زندگی کے کس کس پہلو پر غور کریں۔ قطرے میں دجلہ دکھائی دیتا ہے۔حضرت خواجہ میردرد کاایک شعر ہے:
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہرجا جہان ِدیگر تھا
انسان جب کسی مصیبت میں گرفتارہوتاہے تو ہاتھ پائوں مارکراپنے لیے آسانیاں تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم نے انسانوں کے لیے ایجادات کے درواکردیے تھے ۔ایٹم بم ، جیٹ انجن،الیکٹرونک کمپیوٹر،ریڈاراورپنسلین سے شارٹ ہینڈاورمکی مائوس کارٹون تک سبھی کچھ اسی عبوری دورکی پیداوارہے۔یہ ساری باتیں اپنی جگہ سچ ہیں لیکن ایک حقیقت ہمیشہ ہمارا منہ چڑاتی رہے گی۔وہ یہ کہ زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کے بحرظلمات کو عبور کرنے کی کوشش میں ہم تو اس جہان دیگر کی خبر ہی نہ رکھ سکتے،کب پیرانہ سالی آجاتی ہے ،پتاہی نہیں چلتا،ہمارے حصے کی زندگی دوسرے لوگ گزارجاتے ہیں ۔
دوسال پہلے کورونا وائرس کے سبب گھروں میں مقیدلوگوں کوجب خودکلامی کا موقع ملا تو زندگی کی بہت سی حقیقتیں اور بھی صا ف اور شفاف ہوکرسامنے آگئیں۔ہر جگہ ایک نیا جہان دکھائی دینے لگا۔انسان واقعی اپنے آپ سے بہت آگے نکل گیا تھا،جہاں ان کے قدم پہنچے بے برکتیوں کے در وا ہوئے ۔خداوندمتعال نے کرۂ ارض کی مرمت کو ضروری جانا،زندگی کے سبھی ہنگاموں کووقتی طورپر ’’سٹاپ ‘‘ لگ گیا۔یہ انسان کے لیے قدرت کی طرف سے ملنے والا ایک موقع تھا، اب کہیں جاکر ویران چمن کچھ ہرے بھرے توہوئے ہیں لیکن اس کے اثرات ابھی کئی دہائیوں تک موجود رہیں گے۔کاش شعور کی سطح پرپہنچ کر اس کے رطب ویابس سے آگاہی بھی حاصل کی جاسکے:
وہ قیامت جو سر سے گزری ہے
دیکھیے کب شعور سے گزرے
٭…٭…٭