قبل ازوقت انتخابات: امکانات اور مضمرات
کہتے ہیں کہ جب شیر کے منہ کوانسانی خون لگ جائے تو پھر اسے دیگر جانوروں کا گوشت بد ذائقہ اور بدمزہ لگتا ہے۔ وطنِ عزیز میں جو شخص وزارتِ عظمیٰ کا ’’ہوٹا‘‘ لے لے پھر وہ باہر چین سے نہیں بیٹھ سکتا۔ اسے خواب میں بھی اُڑن کھٹولے۔ بلٹ پروف گاڑیاں ’ہیلی کاپٹر نظر آتے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی کچھ ایسے Fringe benefits ہیں جن کا ذکر کرنا مناسب نہ ہو گا…ہم نے کئی برطانوی وزرائے اعظم کو معزولی کے بعد 10 ڈائوننگ اسٹریٹ سے نکلتے دیکھتا ہے۔ ایک ہاتھ میں سوٹ کیس، دوسرے سے بچوں کی اُنگلی تھامے وہ بڑے وقار سے دو سو گز دور کھڑی کھٹارہ سی گاڑی میں بیٹھ کر گوشہ گمنامی میں چلے جاتے ہیں۔ کوئی شور و غوغہ، حال دہائی نہیں ہوتی۔ کسی اضطراری کیفیت کا اظہار نہیں کیا جاتا ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ ؟ میرے خلاف سازش ہوئی ہے!‘‘ کا نوحہ بھی نہیں پڑھا جاتا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایوانِ اقتدار سے باہر آنے کے بعد خان صاحب خاصے مقبول ہو گئے ہیں۔ جس والہانہ انداز میں لوگ جوق درجوق ان کے جلسوں میں آ رہے ہیں اور جس طرح انہوں نے ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے، وہ اس بات کا بین ثبوت ہے۔ وہ (ن) لیگ جس نے خان کے دور میں بارہ ضمنی انتخابات ایک تسلسل اور تواتر کے ساتھ جیتے تھے‘ اب منقار زیر پر ہے بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ ہ لاکھ کہتے رہیں کہ یہ سب کچھ خان کی غلط پالیسیوں کا شاخسانہ ہے‘ کوئی ماننے کو تیار نہیں عوام نفسیات لمحہ موجود پر یقین رکھتی ہے ماضی کی طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ صورت حال اس حکومت کی پیدا کردہ نہیں ہے۔ بین الاقوامی کساد بازاری‘ کروُڈ اور خوردنی تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ گندم آٹھ ہزار روپے من پڑ رہی ہے ۔رہی سہی کسر حالیہ سیلاب نے نکال دی ہے ۔قوم ایک شدید قسم کے اضطراب سے گزر رہی ہے۔ مفلسی تنگدستی نے بھنگڑا ڈال رکھا ہے۔ بیماریاں موت کے پروانے لے کر آرہی ہیں۔ ’’نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں والی کیفیت ساری قوم پر طاری ہے حقیقت وہ نہیں جو ہوتی ہے بلکہ وہ ہوتی ہے جسے لوگ "Perceiveـ کرتے ہیں عمران صاف بچ کر نکل گیا ہے اور موجودہ حکمران اپنے ’’ ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں ۔
خان کو گمان ہے کہ مقبولیت کے گھوڑے پر دیر تک سوار نہیں رہا جا سکتا۔ اس لیے یہ نادر موقع ہے کہ SNAP POLLS ہو جائیں۔ حکومت قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کچھ Breathing space چاہتی ہے۔ خان نے حکومت کو ’’سوچنے اور سمجھنے‘‘ کے لیے دو ہفتوں کی مہلت دی ہے۔ عام حالات سے شدید عوامی ردِعمل کیا ہوتا۔ لوگ مر رہے ہیں! بچے بھوک سے بلک رہے ہیں! عورتیں زچگی کے عالم میں کھلے آسمان تلے بچے جن رہی ہیں۔ لیکن اب تک ایسا ردِعمل نہیں آیا۔ اُس کی دو بنیادی وجوہ ہیں۔ ایک تو پنجاب کافی حد تک سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچا ہوا ہے۔ دوسرا سیلاب زدگان کو اپنی ہوش نہیں ہے‘ انہوں نے احتجاج کیا کرنا ہے!
کیا حکومت خان کا مطالبہ مان لے گی؟ قرائین سے ایسا لگتا نہیں ہے۔ یہ سیاسی خودکشی کے مترادف ہو گا!۔ مارچ ،بالفرض اسلام آباد پہنچ گیا تو پُرامن نہیں رہ سکتا۔ کچھ بھی ہو جائے، خان کے حامی زیادہ دیر تک اسلام آباد میں خیمہ زن نہیں رہ سکتے۔ ان کے کسی ایک مخصوص جگہ بیٹھنے سے حکومت کو کچھ فرق نہیں پڑے گا۔
مولانا قادری فضل الرحمن اور خود خان نے پہلے ایسا کر کے دیکھ لیا ہے۔ اس لیے تشدد ناگزیر ہو جائے گا! اس صورت میں بقول عمران خان کھیل فریقین کے ہاتھ سے نکل بھی سکتا ہے۔ باالفاظ دیگر کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا…
دوسری جنگ عظیم میں حفیظ جالندھری اور ضمیر جعفری فوج کے شعبہ ابلاغ میں بھرتی ہو گئے۔ حفیظ صاحب کو کرنل کا رینک ملا۔ نوجوان جعفری کیپٹن مقرر ہوئے۔ اس دوران ان میں چشمک جاری رہی۔ یہ تو مانا جا سکتا ہے کہ دو بادشاہ ایک اقلیم میں ٹھہر سکتے ہیں لیکن دو شاعر ایک تنگنائے غزل میں نہیں سما سکتے۔ جنگ کے اختتام پر دونوں کو فارغ کردیا گیا۔ جعفری صاحب کی رگِ ظرافت پھڑکی۔ انہوں نے ایک چٹ جالندھری صاحب کو بھجوائی جس پر لکھا تھا :
جرمنی بھی گئی ساتھ جاپانی بھی گئی
تیری کرنیلی بھی گئی
میری کپتانی بھی گئی
(ختم شد)