’’کھیر پکائی جتن سے‘‘
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں وفاقی اور صوبائی چیف جسٹس صاحبان کے ازخود آئینی اختیارات‘ سپریم کورٹ کی آئین کی شارح ہونے کی حیثیت اور ریاستی اداروں کی آئینی حدود وقیود کے حوالے سے چند گزارشات پیش کی تھیں۔ مجھے یہ گزارشات پیش کرنے کا موقع بھی سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کی سربراہی میں قائم ان فاضل اعلیٰ عدالتوں کے خصوصی بنچوں کی جانب سے صادر کئے گئے بعض حالیہ فیصلوں کی بنیاد پر ملا۔ اب انہی فیصلوں اور چیف جسٹس صاحبان کے ریمارکس کی بنیاد پر سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے بھی لندن میں اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ اپنی پریس کانفرنس میں بعض سوالات اٹھائے ہیں اور اپنے اطمینانِ قلب کیلئے یہ فقرہ بھی ادا کیا ہے کہ ’’اب سوال پوچھنا تو بنتا ہے‘‘۔ جناب! اب سوال پوچھنے کے در کھولے گئے ہیں تو صبر و ہمت اور فہم و ادراک کے ساتھ ان اٹھتے سوالات کا سامنا بھی کیجئے۔
مجھے تو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے کاکول اکیڈمی کی سالانہ پاسنگ آئوٹ پریڈ کی تقریب میں دیئے گئے اس خطبے پر ہی کافی تسلی اور اطمینان ہو گیا ہے جس میں انہوں نے دوٹوک الفاظ میں باور کرایا ہے کہ ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ ہم امن اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ اور جمود توڑنے کیلئے بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ ہم کسی ملک‘ گروہ یا قوت کو پاکستان میں عدم استحکام پیدا نہیں کرنے دینگے۔ اس خطاب میں آرمی چیف کا روئے سخن تو یقیناً ہمارے ازلی مکار دشمن بھارت اور ’’کھلے راز‘‘ والی بیرونی طاقت کی جانب تھا مگر اس پیغام میں بادی النظر میں ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام کی کوششوں میں مصروف اندرونی عناصر و عوامل کیلئے ٹھوس پیغام کی جھلک بھی ٹپکتی ہوئی نظر آئی جس پر موجودہ حکومت سے وابستہ سیاسی قیادتوں اور کارکنوں کو یک گونہ اطمینان ہوا کہ اب عمران خان کی جاری افراتفری والی سیاست اور انکی تخریبی سوچ حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ آرمی چیف کا یہی بیان وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے اطمینان کیلئے کافی ہے جو عمران خان کے اسلام آباد پر لانگ مارچ کی شکل میں چڑھائی کے منصوبے کے آگے مؤثر بند باندھنے کیلئے اپنے تجویز کردہ اقدامات پر عملدرآمد کے معاملہ میں ’’کہیں سے‘‘ اجازت ملنے کے منتظر تھے۔ اب وہ آرمی چیف کے ارشادات کو اپنے لئے گرین سگنل سمجھیں تو وہ 25 مئی والے اقدامات سے بھی زیادہ سخت انتظامی اقدامات اٹھا سکتے ہیں اور عمران خان اپنے جھوٹے سچے بیانیہ کی بنیاد پر قوم میں چاہے جتنے بھی مقبول ہو چکے ہوں‘ ان میں اور انکے پارٹی ورکروں میں سٹیٹ اتھارٹی کا سامنا کرنے اور ڈٹ کر کھڑے ہونے کی بہرحال ایسی ہمت ہرگز نہیں ہے جو ضیاء الحق کے ریاستی جبر کا مسلسل آٹھ سال تک سامنا اور مقابلہ کرنے کی اس وقت کے اپوزیشن اتحاد ایم آر ڈی کے قائدین اور کارکنوں میں نظر آتی تھی۔ میں نے چونکہ بھٹو دور کے سیاسی مخالفین کیخلاف ریاستی جبر کا بھی اپنی آنکھوں کے ساتھ مشاہدہ کیا اور تھانہ سول لائنز لاہور سے کیمپ جیل تک یہ ریاستی جبر بھگتا بھی ہوا ہے۔ اسی طرح ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران ہونیوالے ریاستی جبر کے واقعات بھی میری آنکھوں کے سامنے کے واقعات ہیں اس لئے میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ تحریک انصاف کے دودھ پینے والے مجنوں ایسے ریاستی جبر کے سامنے ایک لمحہ کیلئے بھی نہیں ٹھہر سکتے۔ بے شک 25 مئی کو اسلام آباد میں اودھم مچانے کیلئے انہیں عدالت عظمیٰ کے فاضل چیف جسٹس کے حکمنامہ کے تحت کھلی چھوٹ بھی ملی‘ اسکے باوجود خود عمران خان دھرنے کیلئے اپنی متعین کر دہ جگہ پر پہنچنے سے پہلے ہی اودھم مچانے والی اپنی سیاست کا بوریا بستر گول کرگئے تو اب انکی اسلام آباد پر چڑھائی روکنے کیلئے ’’گرین سگنل‘‘ کے سہارے رانا ثناء اللہ کے اٹھائے جانیوالے اقدامات کے آگے دودھ پینے والے مجنوں بھلا کہاں ٹھہر پائیں گے۔
یہ موجودہ حکومت کیلئے بلاشبہ انتہائی اطمینان بخش صورتحال ہے مگر بھائی صاحب! میاں نوازشریف اب ’’بلی کے گلے میں گھنٹی کون ڈالے گا‘‘ والے جو سوالات اٹھا رہے ہیں‘ کیا انکی بنیاد پر سیاست میں 2018ء والا ارتعاش پھر تو نہیں پیدا ہونیوالا؟ بے شک اس عرصہ کے دوران‘ اور میں یہ کہوں تو بھی بے جا نہیں ہوگا کہ 2016ء سے اب تک فاضل اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے ازخود نوٹس کے آئینی اختیارات اور آئین کی بعض دفعات اور شقوں کی تشریح کے عمل میں شاید ضرورت سے زیادہ فعالیت کا مظاہرہ کیا گیا ہے جس کا اب اس مقدس ادارے کے محترمین کو بھی شاید احساس ہونے لگا ہے اور اپنے ان ریمارکس کے ذریعے ’’متعلقین‘‘ کو اس فعالیت کے نتیجہ میں پہنچنے والے نقصان کے شاید ازالہ کیلئے راستہ نکالنے کی فضا بنائی گئی ہے کہ کسی کو تاحیات نااہل قرار دینے کی سزا پر مبنی قانون ’’ڈریکونین لائ‘‘ ہے۔ مگر قانون و آئین کی ایسی کوئی شق تو ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل پائی جس کے تحت صادق اور امین ثابت ہونیوالے کسی شخص کو تاحیات نااہلی والی سزا کا مستوجب ٹھہرایا جاسکے۔ آئین کی متعلقہ شق 62۔ایف کی پوری عبارت میں ایسا کوئی لفظ موجود نہیں کہ صادق اور امین ثابت نہ ہونیوالا شخص تاحیات نااہلی کی سزا کا مستوجب ہوگا۔ اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ اسکی نشاندہی بھی اب فاضل عدالت عظمیٰ نے ہی فیصل وائوڈا کی تاحیات نااہلی کے خلاف دائر اپیل کی سماعت کے دوران یہ سوال اٹھا کر کی کہ آئین کی دفعہ 62۔ایف میں تاحیات نااہلی والی سزا کہاں موجود ہے‘ اب میاں نوازشریف بھی عدالت عظمیٰ کے اٹھائے گئے اسی سوال کا سہارا لے کر اپنی تاحیات نااہلی کی سزا سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کر چکے ہیں اس لئے فاضل عدالت عظمیٰ کو بہرصورت میاں نوارشریف کی تاحیات نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا جائزہ لینا ہوگا جو اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں صادر کیا گیا اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس فیصلہ کی بنیاد میاں نوازشریف کا اپنے بیٹے کی دوبئی والی کمپنی کے ملازم کی حیثیت سے تنخواہ نہ لینے والا اقدام بنایا گیا۔ بھلے اب آپ یہ بھی سوال اٹھا لیجئے کہ میاں نوازشریف کو وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی اپنے بیٹے کی کمپنی میں محض دس ہزار درہم والی ملازمت اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی مگر تاحیات نااہلی والی سزا تو ’’جرموں ودھ سزا واں ملیاں‘‘ کے مصداق ہے جسے جوڈیشل ایکٹوازم اور آئین کی کسی شق کی تشریح کی نادر مثال کہا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے میاں نوازشریف نے لندن میں اپنی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس کے دوران جو سوالات اٹھائے وہ بجھی ہوئی آگ کو دوبارہ شعلہ دکھانے والے ہیں۔ حضور! آپ مرزا غالب کے اس شعر کا سہارا لے کر اپنے خلاف ہونیوالی مبینہ انتقامی کارروائی کو فراموش کر دیں کہ:
جلا ہے جسم جہاں‘ دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ‘ جستجو کیا ہے
اس جستجو میں آپ بنا بنایا کھیل کہیں پھر سے نہ بگاڑ بیٹھیں۔ اب تو آصف زرداری صاحب کے ساتھ آپ کی گاڑھی چھنتی ہے۔ انہوں نے اس فلسفہ کے تحت اپنی اہلیہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے سفاکانہ قتل کی واردات پر بھی درگزر کرلیا تھا کہ جمہوریت سب سے بڑا انتقام ہے۔ میاں نوازشریف سے بھی میری یہی گزارش ہے کہ وہ اپنے حالیہ سیاسی دوست آصف علی زرداری کے اس فلسفہ کو پلے باندھ کر ماضی کے معاملات پر درگزر کرلیں ورنہ ’’کھیر پکائی جتن سے‘‘ والی کہانی کا انجام تو آپ کو بخوبی یاد ہوگا۔