منگل ، 14 ربیع الاول 1444ھ، 11اکتوبر 2022ء
محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی پہلی برسی خاموشی سے گزر گئی
یہ انتہا ہے ایک زندہ اور تابندہ کہلانے والی قوم کی بے حسی کی۔ جس شخص نے ہمیں ناقابلِ تسخیر بنایا ہم نے اسے اتنی جلدی بھلا دیا۔ شقاوت قلبی کی اس سے زیادہ بری مثال کیا ہو گی۔ وہ شخص سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے ملک آیا۔ خاموشی سے سر جھکا کر بنا کسی ستائش و صلے کے اپنے کام میں جت گیا۔ اس کام میں وہ سرخرو ہوا اور پاکستان دنیا کی پہلی ایٹمی اسلامی ریاست اور ساتویں عالمی ایٹمی طاقت بن گیا۔ یوں ہمارا بڑا دشمن جو ہمیں 1971ء کے بعد ترنوالہ سمجھتا تھا دم دبا کر بھاگ نکلا اورجھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ بھارت نے اپنے ایٹمی سائنسدان کو جو مسلمان تھا اپنا صدر بنایا اس کو تکریم دی۔ ہم نے اپنے محسن کو، سر اٹھا کر جینے کا سلیقہ سکھانے والے ایٹمی سائنسدان کو جواب میں کیا دیا۔ قلم میں تاب نہیں کہ وہ سب کچھ لکھے ایک چھوٹا سا لفظ ’’تذلیل‘‘ ہی کافی ہے۔ ایک آمر نے اس سے جبری معافی نامہ لکھوایا۔ جبری نظر بند کیا کیونکہ بڑی طاقتوں کی آنکھ میں یہ کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا۔ امریکی سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جارج ٹینٹ نے انہیں اسامہ بن لادن کی طرح خطرناک قرار دیا تھا۔ دشمن ان پر طرح طرح کے بے ہودہ الزامات لگا رہے تھے۔ ملک و قوم کی خاطر اس محسن پاکستان نے (جنہیں یہ خطاب جناب مجید نظامی نے دیا تھا) کیا کچھ نہ سہا۔ ان کی وفات کے بعد بھی ہمارے جمہوری حکمرانوں کو شرم نہ آئی اورجن کا جنازہ سرکاری اعزاز کے ساتھ بڑے دھوم دھام اور تزک احتشام کے ساتھ اٹھایا جانا تھا اور سپرد خاک کیا جانا تھا۔ نہایت خاموشی سے اٹھا کر انہیں مادر وطن کی مٹی کے سپردکر دیا گیا۔ گزشتہ روز ان کی پہلی برسی پر بھی وہی بے حسی اور غفلت کی دبیز چادر ہمارے حکمرانوں اور قوم کے ذہنوں پر مسلط رہی۔ حالانکہ ان کی خدمات تاقیامت سراہے جانے کے قابل ہیں۔ خداوند کریم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل کرے جو اپنی ہی قوم کی بے قدری کا شکار ہوئے۔
٭٭٭٭٭
سی سی پی او لاہور کی 3 سال نوکری بڑھانے کی درخواست
ذرائع کے مطابق موصوف غلام محمود ڈوگر نے درخواست سروسز ٹربیونل میں دائر کی ہے۔ وجہ یہ بتائی ہے کہ شناختی کارڈ پر ان کی بالی عمریا زیادہ لکھی گئی ہے۔ اصل سن پیدائش 1965ء ہے جو شناختی کارڈ پر 1963ء درج ہے۔ اب خیر سے ڈوگر جی کو عرصہ دراز بعد یہ غلطی یاد آئی۔ پہلے وہ کیوں خاموش تھے۔ اب جب حکومت پنجاب نے ان کی سر پر دست شفقت رکھا ہے۔ انہیں اچانک کیسے اپنی کم عمری یاد آگئی ہے حالانکہ پولیس رولز کے مطابق پہلے ہی ان کی ریٹائرمنٹ اپریل 2023ء طے ہے۔ یہ معاملہ اب کچھ زیادہ ہی سیدھا نہیں لگتا۔ وفاقی حکومت انہیں پنجاب سے واپس مرکز میں طلب کر رہی ہے‘ مگر موصوف وزیراعلیٰ پنجاب کی پشت پناہی کے سبب وہاں جانے سے انکاری ہیں تو مراعات کون دے گا۔ کیا یہ بھی مراعات حاصل کرنے کی چال ہے۔ اس لئے سیانے کہتے ہیں بیورو کریسی کو حکمرانوں کی باہمی سیاسی چپقلش سے دور رہنا چاہئے۔ انہیں کسی کی خوشنودی کی بجائے قانون اور رولز کے مطابق کام کرنا چاہئے ورنہ اب سب کہیں گے کہ سی سی پی او لاہور اپنی حمایت کے بدلے وزراعلیٰ اور حکومت سے ناجائز مراعات کے خواہشمند ہیں۔ چاہے معاملہ درست ہی کیو نہ ہو اس کے استعمال کا یہ موقع درست نہیں ہے۔ انہوں نے شایدیہ ’’موقع چنگا تو فیدا اٹھا لے منڈیا‘‘ کے مقولے کو سامنے رکھ کر سوچا ہوگا مگر ہر موقع ’’چنگا‘ نہیں ہوتا۔ کوئی موقع ’’مندا‘‘ بھی ہو جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭
شیخ رشید کا نیا لہجہ۔ تخت یا تختہ کی کال پر زور
ایک طرف عمران خان ہیں کہ کال کو مہا کال بنانے سے گریزاں ہیں۔ اس لیے اسے کھینچ کھانچ کر آگے سے آگے لے جا رہے ہیں۔ اب اکتوبر کے جلسوں کا شیڈول بتاتا ہے کہ فی الحال جس کال کا شیخ رشید کو شدت سے انتظار ہے وہ نہیں آئی۔ عمران خان نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ جب تک کوئی نیوٹرل اشارہ یا امپائر انگلی نہیں اٹھاتا وہ بھلا اسلام آباد کے گھیرائو کی کال کیسے دیں گے۔ جس کا نتیجہ ناکامی ہو۔ البتہ شیخ رشید کو بہت جلدی ہے نجانے کیوں وہ سخت اشتعال میں بھی ہیں۔ گزشتہ روز بھی وہ بیوہ عورت کی طرح ماتھا پیٹ کر ہاتھ جوڑ کر جس طرح ٹی وی پروگرام میں عمران خان سے اپیل کر رہے تھے کہ کال دو۔ بتی کے پیچھے نہ لگائو۔ نیوٹرلز سے مذاکرات یا خفیہ ملاقات کو ختم کرو۔ آگے بڑھو اسلام آباد کا محاصرہ کرو وہ حیران کن تھا۔ صرف یہی نہیں جوش جذبات میں شیخ جی نیوٹرلز پر بھی برسے کہ وہ بھی فیصلہ کر لیں اِدھر یا اُدھر۔ اب بہت ہو چکا ہے۔ ان کے رونے دھونے کے اس پروگرام سے لگتا ہے اگر خان صاحب نے شیخ جی کی بات نہیں مانی تو کہیں وہ سیاست سے کنارہ کشی یا پھر خودکشی نہ کر ڈالیں۔ خدا نہ کرے کہ ایسا ہو وہ ہماری سیاست کیلئے ایک مزاحیہ کردار ہیں۔ ان کی جگہ دور دور تک کوئی اور لیتا نظر نہیں آتا۔ شاید وہ بھی کبھی اگست کبھی ستمبر اب اکتوبر کو خطرناک قرار دے دے کر تھک گئے ہیں۔ کیوں کہ نومبر تک بھی کسی لانگ مارچ یا محاصرہ کی کال آتی نظر نہیں آ رہی۔
٭٭٭٭٭
ایم کیو ایم کے کامران خان ٹیسوری گورنر سندھ بن گئے
یہ دنیا عجائبات سے بھری پڑی ہے۔ قدم قدم پر ایک نئی کہانی سننے کو ملتی ہے۔ ایک نیا دور دیکھنے کو ملتا ہے۔ پہلے مشرف پھر فنکشنل لیگ اور پھر ایم کیو ایم کے رہنما بننے والے کامران خان ٹیسوری اب خیر سے سندھ کے گورنر بن چکے ہیں۔ ان کی ذات کے اردگرد بھی سینکڑوں منفی کہانیاں ’’بھول بھلیاں‘‘ بن کر گھیرا ڈالے ہوئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے پرانے رہنمائوں کو شکوہ ہے کہ ان کی وجہ سے ان کی جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی۔ لوگوں کا الزام ہے کہ ان کا رابطہ بھتہ خوروں اور مسلح گروہوںسے بھی رہا ہے۔ سب سے زیادہ دکھ تو فاروق ستار کو ہو گا جو ایم کیو ایم کے بانی ارکان میں سے ایک ہیں۔ ان کی ساری سیاست کو سیاسی ساکھ کی کامران ٹیسوری جی کی وجہ سے جو نقصان پہنچا وہ پوشیدہ بات نہیں ہے۔ اب ان کی تقرری کا حکم نامہ صدر مملکت عارف علوی نے جاری کیا ہے۔ یہ بھی ایک عجب کہانی ہے۔ وہ بھی لسانی سیاست کے خوشہ چیں رہے ہیں۔ انہوں نے کچھ سوچ کر ہی باقی ناموں کی بجائے ان کو ترجیح دی تو یہ کہیں پی ٹی آئی کے کہنے پر تو نہیں تھا کہ انہوں نے ایسا شخص چنا جس کی وجہ سے سندھ کی سیاست میں اختلافات بڑھیں گے اس طرح تو صدر مملکت نے بھوسے کے ڈھیر پر تیلی پھینک دی۔ اس پر پی ٹی آئی والے تو خوشیاں منا رہے ہوں گے۔ گرچہ گورنر کا عہدہ علامتی ہوتا ہے۔ امید ہے سندھ کی سیاسی جماعتیں صبر و تحمل سے کام لیں گی۔ ویسے بھی اس عہدہ کے لیے تمام نام سندھ کی دونوں بڑی جماعتوں نے افہام و تفہیم سے دئیے ہوںگے۔