نواز شریف کی جذباتی مگر محتاط گفتگو
نواز شریف صاحب کی شخصیت اور سیاست کی با بت عمومی طورپر غیر مطمئن افراد بھی اگر غیر جانب دار ہوکر سوچیں تو اس تاثر کی نفی کرنا ممکن نہیں کہ وہ محض عمران خان صاحب کی جارحانہ سیاست ہی کی وجہ سے وزارتِ عظمیٰ سے فارغ نہیں ہوئے تھے ۔ ریاست کے ”ستون“ کہلاتے کئی دائمی اداروں نے بھی انہیں انتہائی منظم انداز میں ”گھیرا“۔ثاقب نثار کی سرپرستی میں چلائے عدالتی عمل نے اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ نواز شریف اس عمل کو بھولے نہیں ہیں۔اتوار کے دن لندن میں مقیم صحافیوںکے جس چنیدہ گروپ سے انہوں نے جو گفتگو کی وہ سابق وزیر عظم کے دل میں جمع ہوئے غبار کا اظہار تھا۔
مذکورہ اظہار نے ان کے دیرینہ حامیوں کو یقینا بہت کچھ سوچنے کو اُکسایا ہوگا۔ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے اگرچہ میں یہ اصرار کرنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ طویل خاموشی کے بعد نسبتاََ تفصیلی انداز میں ہوئی گفتگو کے دوران بھی اپنے تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے نواز شریف صاحب نے ”اصل بات“ آشکار نہ کی۔اس بنیادی سوال پر کماحقہ توجہ بھی نہیں دی کہ وہ آئندہ چند ہفتوں میں اپنی دختر سمیت وطن لوٹ کر اپنے نام سے منسوب مسلم لیگ کا عملی اور کامل کنٹرول سنبھالنے کی تیاری کررہے ہیں یا نہیں۔
نواز شریف صاحب کے ساتھ میری آخری ملاقات 2013ءکے انتخابات کے لئے چلائی مہم کے دوران ایک ٹی وی انٹرویو کی وجہ سے ہوئی تھی۔اس کے بعد ان سے براہِ راست ملاقات کا کبھی موقعہ نہیں ملا۔وہ جب وزیر اعظم تھے تو 2016ءکے اوائل میں البتہ مریم نواز شریف صاحبہ سے ایک ملاقات ہوئی تھی۔بعدازاں ان سے ایک ٹی وی انٹرویو کی خاطر بھی ملا تھا جب سابق وزیر اعظم لندن میں دل کا آپریشن کروارہے تھے۔مریم نواز صاحبہ سے بھی اس کے بعد کبھی براہِ راست ملاقات نہیں ہوئی۔
نواز شریف صاحب سے براہِ راست ملاقات ہو بھی جائے تو کائیاں ترین رپورٹر کے لئے بھی ان سے ”دل کی بات“نکلوانا ممکن نہیں۔بہت مہذب انداز میں وہ اہم معاملات کی بابت اپنی رائے کا اظہار کرنے کے بجائے سوال کرنے والے سے اس کی رائے معلوم کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔یوں ان کے ساتھ ہوئی لمبی ملاقات بھی ”اَن کہی“ باتوں کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے۔نواز شریف صاحب کی ذات اور سوچ تک عدم رسائی کے اعتراف کے بعد میں ان کے دل میں جمع ہوئی باتوں کو ”آشکار“ کرتے ہوئے احمقانہ ڈھٹائی یا خود کو عقل کل ثابت کرنے کا مظاہرہ کرتاہی محسوس ہوںگا۔
گزشتہ چند دنوں میں مسلم لیگ (نون) کے چند قدآور رہ نماﺅں کی گفتگو کو بہت توجہ سے سننے کے بعد اگرچہ یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ نواز شریف صاحب کا وسوسوں بھرا دل ابھی تک یہ تسلیم کرنے کو مائل نظر نہیں آرہا کہ پاکستان کی سیاست کا منظر نامہ تیار کرنے والے حتمی فیصلہ سازوں نے یکسوہوکر عمران خان صاحب کو ”سبق“ سکھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔عمران خان بذاتِ خود تو عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے ”محافظوں“ کو ”چور اور لٹیروں“ کی سرپرستی کے طعنے دیتے رہتے ہیں۔ان کے چند بااعتماد ساتھی مگر اپنے ٹویٹس اور ٹی وی انٹرویوز کے ذریعے مسلسل یہ تاثر پھیلانے میں مصروف ہیں کہ ”محافظ“ ان کے قائد کے ساتھ رابطے میں ہیں اور صدر عارف علوی اس ضمن میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔اس دعویٰ کو ابھی تک کھل کر متعلقہ حلقوں نے رد نہیں کیا ہے جو یقینا نواز شریف صاحب کے دل میں موجود شک کو تقویت پہنچا رہا ہوگا۔
لندن میں مقیم نواز شریف صاحب کو یہ جاننے کے لئے مجھ جیسے رپورٹر کے کالم پڑھنے کی ضرورت نہیں کہ شہباز شریف صاحب کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد نمودار ہوئے مہنگائی کے عذاب نے اس ”ووٹ بینک“ کو شدید زک پہنچائی ہے جو 1985ءسے سابق وزیر اعظم نے نہایت لگن سے تیار کیا تھا۔ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافے کے علاوہ گزشتہ تین مہینوں سے آرہے بجلی کے بلوں نے مسلم لیگ (نون) کے ”پکے ووٹروں“ کو بھی بلبلانے کو مجبور کردیا ہے۔وسیع تر پیمانے پر پھیلی مایوسی اور بلبلاہٹ بالآخر مفتاح اسماعیل کی فراغت کا باعث ہوئی۔ان کی جگہ لینے کے لئے اسحاق ڈار صاحب کی وطن واپسی کی راہ نکالنا پڑی۔
ڈار صاحب کی آمد کے بعد ڈالر کی قدر میں نمایاں کمی رونما ہونا شروع ہوگئی ہے۔ غریب ترین پاکستانی بھی لیکن بنیادی ضرورت کی جو پچاس اشیاءخریدنے کو مجبور ہے ان کی قیمتوں میں نمایاں کمی رونما نہیں ہورہی۔مسلم لیگ (نون) کے حامی اگرچہ یہ توقع باندھے ہوئے ہیں کہ ڈار صاحب اس ضمن میں بھی کوئی ”جگاڑ“ دریافت کرلیں گے۔ڈار صاحب سے معجزوں کی توقع باندھتے ہوئے لیکن یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت ایک بار پھر بڑھنا شروع ہوگئی ہے۔روسی تیل کی فروخت پر مختلف النوع پابندیاں عائد کرنے کے بعد امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ نے اپنے تیل کے ہنگامی حالات کی خاطر جمع کئے ذخائر سے عالمی منڈی کو تیل فراہم کرنا شروع کردیا تھا۔روس اور سعودی عرب نے مگر اوپیک تنظیم میں یکسو ہوکر یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنا تیل بازار میں معمول سے کم سطح پر فراہم کریں گے۔ ان کی جانب سے رسد میں لائی کمی طلب بڑھائے گی جو تیل کی قیمت کو دوبارہ سو ڈالر فی بیرل تک لے جاسکتی ہے۔امریکہ مذکورہ امکان کا مناسب توڑ ا¾بھی تک ڈھونڈ نہیں پایا ہے۔
پاکستان اس کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ ہماری کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت مناسب سطح پر واپس لوٹ بھی آئی تو ہمیں بالآخر پیٹرول پمپوں پر زیادہ دام ہی ادا کرنا ہوں گے۔ پیٹرول پمپ پر گیا صارف عالمی منڈی کے ”حقائق“ کو ذہن میں نہیں رکھتا۔جو جماعت یا شخص بھی حکومت میں ہو اسے مہنگائی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ عمران خان صاحب اس تناظر میں خوش نصیب ثابت ہورہے ہیں۔اپنے حامیوں کے علاوہ عام پاکستانیوں کی کماحقہ تعداد کو بھی یہ سوچنے کو مجبور کررہے ہیں اگر انہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے رواں برس کے اپریل میں وزارت عظمیٰ سے فارغ نہ کیا جاتا تو پاکستان کے معاشی حالات غالباََ اس قدر دُگرگوں نہ ہوتے۔تحریک انصاف اس تاثر کا بھرپور فائدہ اٹھارہی ہے جس کو رد کرنے کے لئے فی الوقت شہباز حکومت کے پاس کوئی ٹھوس چال نظر نہیں آرہی۔ نواز شریف صاحب کی جانب سے اتوار کے روز ہوئی جذباتی مگر محتاط گفتگو کو اس تناظر میں دیکھنا ہوگا۔